کیا فرماتے علماء کرام و مفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں:
1۔ میرے سابقہ سسرال والوں کا مطالبہ ہے شادی کے موقع پر جو جہیز کا سامان لڑکی کو دیا تھا اس سامان کو واپس کرنے کے بجائے اس کی قیمت ادا کی جائے جب کہ ہمارا کہنا ہے کہ آپ اپنا سامان ہی واپس لے جائیں۔
کیا شرعاً سامان واپس کرنا ضروری ہے؟ یا اس کی قیمت ادا کرنا ضروری ہے؟
2۔ سابقہ سسرال والے شادی کے کھانے ، ڈیکوریشن اور دلہن کے زیب وزینت کے اخراجات کے پیسوں کا مطالبہ کر رہے ہیں، کیا ان اخراجات کے پیسوں کا مطالبہ کرنا شرعاً درست ہے یانہیں ؟ کیا یہ پیسے بھی ادا کرنا میرے اوپر ضروری ہے؟
3۔ میرے سابقہ سسرال والے اپنی بیٹی کے لیے انگوٹھی اور لاکٹ کا مجھ سے مطالبہ کر رہے ہیں۔ جب کہ میں حلفًا کہ سکتا ہوں کہ نہ میرے پاس یہ ہیں، اور نہ ہی میں نے دیکھےہیں، اس مسئلہ کو شرعی نقطہ نظر سے کیسے حل کیا جائے؟
مہربانی فرماکر قرآن وسنت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔
1۔ شادی کے موقع پر دلہن کو اس کے گھر والوں کی جانب سے جہیز میں جو کچھ دیا جاتا ہے، ان اشیاء کی دولہن مالک ہوتی ہے، جس کی بنا پر طلاق کی صورت میں جہیز کا سامان اپنے ساتھ واپس لے جانے کی شرعًا حق دار ہوتی ہے، لہذا صورتِ مسئولہ میں سائل کے سابقہ سسرال والے جہیز کا سامان ہی وصول کرنے کے حق دار ہوں گے، سامان کی قیمت کے مطالبہ کا شرعًا حق نہیں ہوگا، البتہ اگر سائل سامان خریدنے پر راضی ہو، تو اس صورت میں قیمت وصول کرسکتے ہیں، تاہم سائل کی رضامندی کے بغیر قیمت کے مطالبہ کا انہیں شرعًا حق نہیں ہوگا۔
رد المحتار علي الدر المختار میں ہے:
"فإن كل أحد يعلم أن الجهاز ملك المرأة وأنه إذا طلقها تأخذه كله، وإذا ماتت يورث عنها ولا يختص بشيء منه وإنما المعروف أنه يزيد في المهر لتأتي بجهاز كثير ليزين به بيته وينتفع به بإذنها ويرثه هو وأولاده إذا ماتت، كما يزيد في مهر الغنية لأجل ذلك لا ليكون الجهاز كله أو بعضه ملكا له ولا ليملك الانتفاع به وإن لم تأذن فافهم."
(باب النفقة، مطلب فيما لو زفت إليه بلا جهاز، ٣ / ٥٨٥، ط: دار الفكر )
2۔ شادی کے موقع پرجانبین کی جانب سے جو ضیافت کا اہتمام کیا جاتا ہے، اور شادی کے جو دیگر اخراجات ہوتے ہیں، اس کی حیثیت تبرع کی ہے، لہذا شادی ٹوٹنے کی صورت میں ایسے اخراجات کے مطالبہ کا فریقین میں سے کسی کو شرعًا حق نہیں ہوتا، نیز اخراجات کا مطالبہ مالی جرمانہ کے قبیل میں سے ہے، جوکہ شرعا جائز نہیں، لہذا مسئولہ صورت میں سائل کے سسرال والوں کے لیے شادی پر آنے والے اخراجات کا مطالبہ کرنا جائز نہیں ۔
العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية میں ہے:
"المتبرع لا يرجع بما تبرع به على غيره كما لو قضى دين غيره بغير أمره. اهـ."
(كتاب المداينات، ٢ / ٢٢٦، ط: دار المعرفة)
البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے:
"ولم يذكر محمد التعزير بأخذ المال وقد قيل روي عن أبي يوسف أن التعزير من السلطان بأخذ المال جائز كذا في الظهيرية وفي الخلاصة سمعت عن ثقة أن التعزير بأخذ المال إن رأى القاضي ذلك أو الوالي جاز ومن جملة ذلك رجل لا يحضر الجماعة يجوز تعزيره بأخذ المال اهـ.
وأفاد في البزازية أن معنى التعزير بأخذ المال على القول به إمساك شيء من ماله عنه مدة لينزجر ثم يعيده الحاكم إليه لا أن يأخذه الحاكم لنفسه أو لبيت المال كما يتوهمه الظلمة إذ لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي وفي المجتبى لم يذكر كيفية الأخذ وأرى أن يأخذها فيمسكها فإن أيس من توبته يصرفها إلى ما يرى وفي شرح الآثار التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ. اهـ.
والحاصل أن المذهب عدم التعزير بأخذ المال."
(كتاب الحدود، فصل في التعزير، ٥ / ٤٤، ط: دار الكتاب الإسلامي)
3۔ انگوٹھی، اور لاکٹ کی ادائیگی کا دعوی محتاج ثبوت ہے، پس اگر سسرال والے شرعی گواہوں سے ثابت کردیتے ہیں، تو اس کی ادائیگی سائل پر لازم ہوگی، اور اگر وہ اپنے دعوی پر گواہ قائم نہ کرسکیں، تو اس صورت میں حلف کی بنیاد پر سائل بری الذمہ ہوگا۔
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:
"وأما حجة المدعي والمدعى عليه فالبينة حجة المدعي واليمين حجة المدعى عليه لقوله عليه الصلاة و السلام: «البينة على المدعي واليمين على المدعى عليه» جعل - عليه الصلاة والسلام - البينة حجة المدعي واليمين حجة المدعى عليه والمعقول كذلك لأن المدعي يدعي أمرا خفيا فيحتاج إلى إظهاره وللبينة قوة الإظهار لأنها كلام من ليس بخصم فجعلت حجة المدعي واليمين."
(كتاب الدعوي، فصل في حجة المدعي والمدعى عليه، ٦ / ٢٢٥، ط: دار الكتب العلمية)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144601101501
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن