بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 ذو الحجة 1445ھ 01 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاق کے جھوٹے اقرار سے بھی شرعاً طلاق واقع ہو جاتی ہے


سوال

 زید نے بیوی کو کوئی بھی طلاق نہیں  دی، اور اس کے دل میں شک تھا،  اس شک کے بنا پر کسی مفتی صاحب سے موبائل پر مسٔلہ معلوم کررہا تھا، مفتی صاحب نے پوچھا کہیں آپ نے بیوی کو طلاق کے الفاظ تو نہیں بولےتھے،تو زید پر زیادہ وسوسے طاری تھے  اس نےمفتی صاحب کو طلاق کی جھوٹی خبر دی،زید کو بعد میں خیال آیا کہ یہ تو جھوٹ  بولا میں نے، کیوں کہ  حقیقت میں بیوی کو کوئی بھی طلاق نہیں  دی تھی،اور نہ بیوی کے سامنے طلاق کا ذکر کیا ہے، زید تو مسٔلہ معلوم کرنا تھا (تو مفتی صاحب اس سے بھی طلاق واقع ہوگی) یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ طلاق کا جھوٹا اقرار کرنے سے بھی شرعاً طلاق واقع ہو جاتی ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں  مذکورہ مفتی صاحب کے پوچھنے پر اگر زید نے  اپنی بیوی کو ایک مرتبہ طلاق دینے کا جھوٹا اقرار کیا تھا تو اس سے زید کی بیوی پرایک  طلاقِ رجعی  واقع ہو چکی ہے، البتہ عدت (تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو تو اور اگر حمل ہو تو بچے کی پیدائش تک عدت )کے دوران زید کو بیوی سے رجوع کا حق حاصل ہے، رجوع کی صورت میں  نکاح برقرار رہے گا اور اگر دورانِ عدت رجوع نہیں کیا تو عدت گزرتے ہی نکاح ختم ہوجائے گا، اس کے بعد دوبارہ ساتھ رہنے کے لئے    باہمی رضامندی سے   دو گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ تجدیدِ نکاح کرنا ضروری ہو  گا،رجوع یا تجدیدِ نکاح بہر صورت  آئندہ کے لیے زید کے پاس بقیہ دو طلاقوں  کا  حق ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

’’و لو أقر بالطلاق كاذباً أو هازلاً وقع قضاءً لا ديانةً‘‘.

(3 / 236،  کتاب الطلاق، ط: سعید) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401101812

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں