2020ء میں ہماری شادی ہوئی تھی، شادی کے کچھ عرصے بعد ہمارے درمیان لڑائی جھگڑے شروع ہوگئے تھے، جس کی تفصیل یہ ہے:
مئی 2021ء میں میں نے اپنی بیوی کو کہا: "طلاق دے دوں گا"۔
30 اپریل 2021ء میں میں نے کہا: "خدا کا واسطہ، اس وقت مجھے چھوڑ دو، میرے دماغ کی نس پھٹ جائے گی،" بیوی نے کہا: "آپ مجھے چھوڑنا چاہتے ہیں؟" اس پر میں نے کہا: "ہاں، تمہیں چھوڑدوں گا یا دنیا چھوڑ دوں گا۔"
30 مئی 2021ء کو بیوی کو میکے جانا تھا جس کی وجہ سے وہ عبایا پہن کر بیٹھی تھی، جس پر اس نے مجھے یہ کہا کہ:"آپ چھوڑ رہے ہیں مجھے؟" مقصد یہ تھا کہ مجھے میری ماں کے گھر چھوڑ رہے ہیں، تو میں نے جواب میں کہا: "ہاں چھوڑ رہا ہوں" مقصد یہ تھا کہ ماں کے گھر چھوڑ رہا ہوں۔
4 جون 2021ء کو میں نےاپنی بیوی سے کہا: "مجھے نہیں رہنا تمہارے ساتھ، میں نے اپنا دماغ بنا لیا تھا، لیکن امی نے منع کیا تھا۔"
4 جولائی 2021ء کو میں نے اپنی بیوی سے کہا: "حرام ہے جو اب میں تمہارے پاس آؤں، یا تمہیں پاس لاؤں۔" اور اس کے بعد 4 ماہ سے قبل ہمارا ازدواجی تعلق قائم ہوچکا تھا اور کفارہ بھی ادا کردیا۔
19 جون 2022ء کو بیوی نے کہا: "3 طلاق دے کر ختم کرو،" اس پر میں نے کہا: "ہاں جا دفع ہوجا" اس جملے سے میری نیت یہ تھی کہ ابھی جھگڑا ختم ہوجائے، طلاق دینے کی نیت نہیں تھی۔
2 مئی 2023ء کو میں نے کہا: "تجھے جو سوچنا ہے سوچ، جہاں جانا ہے جا، اب نہیں رکھوں گا تجھے۔"
13 اپریل 2024ء کو میری بیوی مجھے کسی جگہ لے کر جانے کا مطالبہ کر رہی تھی اور والدین کسی دوسری جگہ لے کر جانے کا مطالبہ کر رہے تھے، میری بیوی دروازہ روک کر کھڑی تھی، اسی دوران اس کے ہاتھ سے میری گھڑی گِر کر ٹوٹ گئی، جس پر میں نے غصے میں آکریہ کہا: "تجھ سے تعلق ختم اب میرا، تو نکل یہاں سے" اور ان الفاظ سے میر امقصد یہ تھا کہ بیوی جو راستہ روک کر کھڑی ہے، وہ چھوڑ دے، طلاق دینے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔
14 اپریل 2024ء کو میں نے کہا:"میں چھوڑنا چاہتا ہوں اِسے، اس سے کہوں یہاں سے چلی جائے۔"
22 مئی 2024ء کو میں نے کہا: "تو تیرا انتظام کرلے، تجھے جہاں رہنا ہو۔"
ان الفاظ کا کیا حکم ہے، برائے مہربانی راہ نمائی فرمائیں۔
صورتِ مسئولہ میں جب پہلی مرتبہ مئی 2021ء میں شوہر نے یہ الفاظ کہے: "طلاق دے دوں گا" اس سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔
شوہر کی یہ بات:" 30 اپریل 2021ء میں میں نے کہا: "خدا کا واسطہ، اس وقت مجھے چھوڑ دو، میرے دماغ کی نس پھٹ جائے گی،" بیوی نے کہا: "آپ مجھے چھوڑنا چاہتے ہیں؟" اس پر میں نے کہا: "ہاں، تمہیں چھوڑدوں گا یا دنیا چھوڑ دوں گا۔" اس سے بھی کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔
30 مئی 2021ء کو جب بیوی کو میکے جانا تھا اور اس پر اس نے شوہر کو یہ الفاظ کہے: "آپ چھوڑ رہے ہیں مجھے؟" جس پرشوہر نے جواب میں یہ کہا: "ہاں چھوڑ رہا ہوں،" تو اگر شوہر کا بیان واقعۃً درست ہے کہ بیوی کو میکے چھوڑنا مقصد تھا اور کوئی مقصد نہیں تھا، تو سائل کی وضاحت کے مطابق اس سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔
4 جون 2021ء کو جو یہ بات کہی: "مجھے نہیں رہنا تمہارے ساتھ، میں نے اپنا دماغ بنا لیا تھا، لیکن امی نے منع کیا تھا، " اس سے بھی کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔
4 جولائی 2021ء کو جو یہ بات کہی: "حرام ہے جو اب میں تمہارے پاس آؤں، یا تمہیں پاس لاؤں،" اس سے ایلاء (4 مہینے یا اس سے زیادہ، یا ہمیشہ کے لیے اپنی بیوی کے قریب نہ جانے کی قسم کھانا) منعقد ہوگیا، جس کا حکم یہ ہے کہ اگر 4 ماہ تک شوہر اپنی بیوی کے قریب نہ جائے، تو ایک طلاقِ بائن واقع ہوجاتی ہے اور 4 ماہ سے قبل بیوی سے قربت کی صورت میں طلاق واقع نہیں ہوتی اور شوہر پر قسم کا کفارہ لازم ہوتا ہے، تو چوں کہ شوہر ایلاء منعقد ہونے کے بعد بیوی سے قربت کر چکا ہے اور قسم کا کفارہ بھی ادا کر چکا ہے، تو اس سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔
19 جون 2022ء کو جب بیوی نے کہا: "3 طلاق دے کر ختم کرو،" جس کے جواب میں شوہر نے کہا: "ہاں دفع ہوجا"، تو شوہر کا بیان اگر واقعۃً درست ہے کہ میری نیت طلاق دینے کی نہیں تھی، تو اس سے بھی کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔
اس کے بعد 2 مئی 2023ء کو جو یہ الفاظ استعمال کیے:"تو تیرا انتظام کرلے، تجھے جہاں رہنا ہو" اس سے بھی کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔
اس کے بعد 13 اپریل 2024ء کو جو یہ الفاظ استعمال کیے: "تجھ سے تعلق ختم اب میرا، تو نکل یہاں سے" اگر سائل کابیان واقعۃً درست ہے کہ ان الفاظ سے بھی طلاق دینے کی کوئی نیت نہیں تھی، تو اس الفاظ سے بھی کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی اور نکاح برقرار ہے۔
خلاصہ کلام یہ کہ صورتِ مسئولہ میں کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی ہے، لڑکا اور لڑکی دونوں میاں بیوی کی حیثیت سے ایک ساتھ رہ سکتے ہیں، البتہ شوہر کو چاہیے کہ آئندہ اس طرح کے الفاظ استعمال کرنے سے اجتناب کرے۔
البحر الرائق میں ہے:
"وليس منه أطلقك بصيغة المضارع إلا إذا غلب استعماله في الحال كما في فتح القدير."
(كتاب الطلاق، باب ألفاظ الطلاق، ج:3، ص:271، ط:دار الكتاب الإسلامي)
الدر المختار مع رد المحتار میں ہے:
"فالحالات ثلاث: رضا وغضب ومذاكرة والكنايات ثلاث ما يحتمل الرد أو ما يصلح للسب، أو لا ولا (فنحو اخرجي واذهبي وقومي) تقنعي تخمري استتري انتقلي انطلقي اغربي اعزبي من الغربة أو من العزوبة (يحتمل ردا .............................. ففي حالة الرضا) أي غير الغضب والمذاكرة (تتوقف الأقسام) الثلاثة تأثيرا (على نية) للاحتمال والقول له بيمينه في عدم النية ويكفي تحليفها له في منزله، فإن أبى رفعته للحاكم فإن نكل فرق بينهما مجتبى.
(وفي الغضب) توقف (الأولان) إن نوى وقع وإلا لا (وفي مذاكرة الطلاق) يتوقف (الأول فقط) ويقع بالأخيرين وإن لم ينو."
وفي الرد:
"(قوله يتوقف الأول فقط) أي ما يصلح للرد والجواب لأن حالة المذاكرة تصلح للرد والتبعيد كما تصلح للطلاق دون الشتم وألفاظ الأول كذلك، فإذا نوى بها الرد لا الطلاق فقد نوى محتمل كلامه بلا مخالفة للظاهر فتوقف الوقوع على النية، بخلاف ألفاظ الأخيرين فإنها وإن احتملت الطلاق لكنها لا تحتمل ما تحتمله المذاكرة من الرد والتبعيد، فترجح جانب الطلاق ظاهرا فلا يصدق في الصرف عنه فلذا وقع بها قضاء بلا نية.
والحاصل أن الأول يتوقف على النية في حالة الرضا والغضب والمذاكرة، والثاني في حالة الرضا والغضب فقط ويقع في حالة المذاكرة بلا نية، والثالث يتوقف عليها في حالة الرضا فقط، ويقع حالة الغضب والمذاكرة بلا نية."
(كتاب الطلاق، باب الكنايات، ج:3، ص:298، 299، 300، 301، ط:سعيد)
رد المحتار میں ہے:
"فإن سرحتك كناية لكنه في عرف الفرس غلب استعماله في الصريح فإذا قال " رهاكردم " أي سرحتك يقع به الرجعي مع أن أصله كناية أيضا، وما ذاك إلا لأنه غلب في عرف الفرس استعماله في الطلاق وقد مر أن الصريح ما لم يستعمل إلا في الطلاق من أي لغة كانت، لكن لما غلب استعمال حلال الله في البائن عند العرب والفرس وقع به البائن ولولا ذلك لوقع به الرجعي."
(كتاب الطلاق، باب الكنايات، ج:3، ص:299، ط:سعيد)
البحر الرائق میں ہے:
"وفي البزازية قالت له أنا طالق فقال نعم طلقت ولو قالت طلقني فقال نعم لا، وإن نوى اهـ."
(كتاب الطلاق، ج:3، ص:274، ط:دار الكتاب الاسلامي)
العنایہ شرح الہدایہ میں ہے:
"(ولو قال كل حل علي حرام فهو على الطعام والشراب إلا أن ينوي غير ذلك) والقياس أن يحنث كما فرغ لأنه باشر فعلا مباحا وهو التنفس ونحوه، هذا قول زفر - رحمه الله تعالى -. وجه الاستحسان أن المقصود وهو البر لا يتحصل مع اعتبار العموم، وإذا سقط اعتباره ينصرف إلى الطعام والشراب للعرف فإنه يستعمل فيما يتناول عادة. ولا يتناول المرأة إلا بالنية لإسقاط اعتبار العموم.
ولو قال كل حل علي حرام فهو على الطعام والشراب إلا أن ينوي غير ذلك، والقياس أن يحنث كما فرغ) لأن قوله هذا في قوة أن يقال والله لا أفعل فعلا حلالا وقد فعل فعلا حلالا وهو التنفس وفتح العينين فيحنث (وهو قول زفر. وجه الاستحسان أن اليمين تعقد للبر وهو لا يحصل مع اعتبار العموم) لامتناع أن لا يتنفس وأن لا يفتح العينين فيعلم بدلالة الحال عدم إرادة العموم فيصار إلى أخص الخصوص وهو الطعام والشراب للعرف فإن العادة جارية باستعماله في المتناولات (و) إذا لم يكن العموم مرادا (لا يتناول المرأة إلا بالنية وإذا نواها كان إيلاء) لما بينا أن هذا الكلام يمين فيكون معناه: والله لا أقربك، وهو من صور الإيلاء."
(كتاب الأيمان، ج:5، ص:90، ط:دار الفكر)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"الإيلاء منع النفس عن قربان المنكوحة منعا مؤكدا باليمين بالله أو غيره من طلاق أو عتاق أو صوم أو حج أو نحو ذلك مطلقا أو مؤقتا بأربعة أشهر في الحرائر وشهر في الإماء من غير أن يتخللها وقت يمكنه قربانها فيه من غير حنث كذا في فتاوى قاضي خان فإن قربها في المدة حنث وتجب الكفارة في الحلف بالله سواء كان الحلف بذاته أو بصفة من صفاته يحلف بها عرفا وفي غيره الجزاء ويسقط الإيلاء بعد القربان وإن لم يقربها في المدة بانت بواحدة كذا في البرجندي شرح النقاية."
(كتاب الطلاق، الباب السابع في الإيلاء، ج:1، ص:476، ط:دار الفكر)
فقط واللہ ٓعلم
فتوی نمبر : 144606101096
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن