بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاق کے بعد گھر کے سامان کی ملکیت کا حکم


سوال

طلاق  كے بعد بیوی جس گھر میں رہتی ہو ، اس کا مال سامان بیوی لے جا سکتی ہے ؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں جہیز   میں جو کچھ بیوی لے کر آتی ہے  وہ بیوی کی ہی ملکیت ہوتا ہے اور  جو  سامان شوہر لاتا ہے، وہ شوہر کی ملکیت ہوتا ہے، البتہ جو چیزیں بطورِ تحفہ میاں بیوی یا ان دونوں کے رشتہ دار دیتے ہیں ان پر اسی کی ملکیت ہوتی ہے جس کو تحفہ دیا گیا ہو، پس گھریلو سامان کی تقسیم اسی بنیاد پر ہوگی۔ اور  جو  زیور لڑکے والوں کی طرف سے ملتاہے،اگر اس کے دیتے وقت  سسرال والوں نے اس بات  کی صراحت کی تھی کہ یہ  بطورِ عاریت یعنی صرف  استعمال کرنے کے لیے ہیں  تو پھر یہ  زیورات اور سامان لڑکے والوں کی ملکیت ہوں گے، اور  اگر سسرال  والوں  نے ہبہ ، گفٹ اور  مالک بناکر دینے کی صراحت کردی تھی تو  پھر ان زیورات اور  سامان   کی  مالک لڑکی ہوگی، اگر اس کے دیتے  وقت کوئی صراحت نہ کی ہو تو  اس میں شوہر کے خاندان کے عرف کا اعتبار ہوگا، اگر ان کے ہاں بطورِ ملکیت دینے کا رواج ہو تو  وہ بیوی کی ملکیت شمار  ہوگا، اگر عاریتًا  دینے کا رواج ہوتو بیوی کی ملکیت نہیں ہوگا   اور  اگر لڑکے والوں کے ہاں کوئی عرف نہ ہو تو عرفِ عام کا اعتبار کرتے ہوئے یہ زیور اور سامان وغیرہ گفٹ سمجھا جائے گا اور لڑکی کی ملکیت ہوگا۔

مذکورہ قاعدہ کی رو سے جو سامان اور زیورات وغیرہ لڑکی کی ملکیت ہوں تو طلاق کے بعد لڑکی سامان اور زیورات وغیرہ کو لے جاسکتی ہے، لیکن جو سامان اور زیورات وغیرہ لڑکی ملکیت نہ ہوں وہ لڑکی اپنے ساتھ لے کر نہیں جاسکتی ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"كل أحد يعلم الجهاز للمرأة إذا طلقها تأخذه كله، وإذا ماتت يورث عنها".

(3/158، باب المہر، ط؛سعید)     

 وفیه أیضاً:

"قلت: ومن ذلك ما يبعثه إليها قبل الزفاف في الأعياد والمواسم من نحو ثياب وحلي، وكذا ما يعطيها من ذلك أو من دراهم أو دنانير صبيحة ليلة العرس ويسمى في العرف صبحة، فإن كل ذلك تعورف في زماننا كونه هدية لا من المهر، ولا سيما المسمى صبحة، فإن الزوجة تعوضه عنها ثيابها ونحوها صبيحة العرس أيضاً".

(3/ 153،  کتاب النکاح، باب المهر، ط: سعید)

وفیه أیضاً:

"والمعتمد البناء على العرف كما علمت".

(3/157، باب المہر، ط؛ سعید)        

فتاوی عالمگیری  میں ہے:

"وإذا بعث الزوج إلى أهل زوجته أشياء عند زفافها، منها ديباج فلما زفت إليه أراد أن يسترد من المرأة الديباج ليس له ذلك إذا بعث إليها على جهة التمليك، كذا في الفصول العمادية".

(1 / 327، الفصل السادس عشر في جهاز البنت، ط: رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212200547

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں