بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 ذو الحجة 1445ھ 01 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاق کے جھوٹے اقرار کرنے سے طلاق کے واقع ہونے کا حکم


سوال

بہنوئی کے سامنے جھوٹ بولتے ہوئے یہ کہنا کہ: اپنی بہن کو لے جاؤ، میں نے اسے طلاق دی ہے، جب کہ اس سے پہلے کوئی مستقل طلاق بیوی کو نہ دی ہو،  کیا اس طرح جھوٹ بولنے سے طلاق واقع ہوگی یا نہیں؟

جواب

 طلاق کے جھوٹے اقرار کرنےسے بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے؛ لہذا  اگر کوئی شخص جھوٹ بولتے ہوئے یہ کہے کہ : اپنی بہن کو لے جاؤ، میں نے اسے طلاق دی ہے تو اس سے بیوی پر ایک طلاقِ رجعی واقع  ہوجائے گی، عدت (پوری تین ماہواریوں) کے دوران بیوی سے رجوع کا حق حاصل ہے، عدت کے دوران اگر رجوع کرلے گا، تو نکاح برقرار رہے گا، اور آئندہ کے لیے دو طلاق کا اختیار حاصل ہوگا، اور اگر رجوع نہیں کیا تو عدت گزرتے ہی نکاح ختم ہوجائے گا، پھر  اگر میاں  بیوی  باہمی رضامندی سے دوبارہ ایک  ساتھ رہنا چاہیں، تو  شرعی گواہان کے روبرو نئے مہر کے ساتھ  دوبارہ عقد کرنا پڑے گا،  اور آئندہ  کے لیے شوہر کو دو طلاقوں کا حق حاصل ہوگا۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"ولو أقر بالطلاق كاذباً أو هازلاً وقع قضاءً لا ديانةً."

(  کتاب الطلاق، ج: 3، ص: 236، ط: سعید)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"وإذا طلق الرجل امرأته تطلیقة رجعیة أو  تطلیقتین  فله أن یراجعها فی عدتها رضیت بذلك أو لم ترض كذا فی الهدایة."

(کتاب الطلاق، الباب السادس فی الرجعة، ج: 1، ص: 471، ط: رشیدیة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404101781

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں