1۔زید اگر جان بوجھ کر دماغ میں طلاق کے خیالات لائے، وہ سوچ رہا تھا زینب کو طلاق ،اس وجہ سے غیر اختیاری طور پر زید کی زبان ہل گئی ،اور جو الفاظ یعنی زینب کو طلاق وہ سوچ رہا تھا، زید کی زبان پر جاری ہوگئے ،کیا یہ بات درست ہے، کہ دیانۃً طلاق واقع نہیں ہوگی، کیوں کہ زید نے مذکورہ الفاظ کہنے کا ارادہ اور قصد نہیں کیاتھا ،یہ الفاظ غیر اختیاری زید کے منہ سے نکلے ،لیکن قضاءً طلاق ہوجائے گی؟
2۔اور کیا یہ بات درست ہے کہ اگر کوئی شخص تنہائی میں طلاق کے الفاظ بولے تو اس کی بیوی مطلقہ بن جائے گی؟
1۔صورت مسئولہ میں اگر واقعۃًطلاق کے خیالات کے دوران صرف زید کی زبان ہلی اور اس نے طلاق کے الفاظ ادا نہیں کئے تو اس سے طلاق واقع نہیں ہوئی،کیوں کہ طلاق کے لیے ضروری ہے کہ طلاق کے الفاظ زبان سے ادا کیے جائیں،اور ادائیگی کا کم سے کم درجہ یہ ہے کہ الفاظ متکلم اور آس پاس کے لوگ بھی سنیں، لہٰذا اس طرح کی صورت میں نہ قضاءًطلاق واقع ہوگی نہ دیانۃً۔
2۔ اگر کوئی شخص تنہائی میں بیوی کو طلاق دےاور الفاظ طلاق زبان سے جاری بھی ہوجائیں تو اس سے طلاق واقع ہو جاتی ہے ،کیوں کہ طلاق کے وقت بیوی کا موجود ہونا ضروری نہیں ہے ۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(قوله وركنه لفظ مخصوص) هو ما جعل دلالة على معنى الطلاق من صريح أو كناية فخرج الفسوخ على ما مر، وأراد اللفظ ولو حكما ليدخل الكتابة المستبينة وإشارة الأخرس والإشارة إلى العدد بالأصابع في قوله أنت طالق هكذا كما سيأتي."
(کتاب الطلاق، باب رکن الطلاق، ج:3، ص:230، ط:سعید)
وفیہ ایضاً:
"(أو مخطئا) بأن أراد التكلم بغير الطلاق فجرى على لسانه الطلاق أو تلفظ به غير عالم بمعناه أو غافلا أو ساهيا ،أو بألفاظ مصحفة يقع قضاء فقط."
(کتاب الطلاق، مطلب فی تعریف السکران و حکمه، ج:3، ص:241، ط:سعید)
حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے:
"وقال الهندواني لا تجزئه ما لم تسمع أذناه ومن بقربه بالسماع شرط فيما يتعلق بالنطق باللسان التحريمة والقراءة السرية والتشهد والأذكار والتسمية على الذبيحة ووجوب سجود التلاوة والعتاق والطلاق والاستثناء واليمين والنذر والإسلام والإيمان حتى لو أجرى الطلاق على قلبه وحرك لسانه من غير تلفظ يسمع لا يقع وإن صحح الحروف"
(کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃوأرکانہا، ص:219، ط:دار الکتب العلمیة)
فتاوی دار العلوم دیوبند (مطبوعہ)میں ہے:
" خیالات میں طلاق آیا پھر آہستہ زبان پر بھی آیا طلاق ہوئی یا نہیں ؟
(سوال ) نکاح ہونے سے تھوڑی دیر بعد اس کے دل و زبان پر شیطانی وسوسہ، خیالات فاسدہ آپ ہی آپ بلانیت و قصد وارادہ کے جاری ہو گئے ہوں ،کہ تو نے فلاں کو قبول کیا یا نہیں ؟، میں نے نہیں کیا، یا میں نے اس کو ترک کیا ،اور دل میں خیالات فاسدہ ہو کر بلا ارادہ کے آہستہ زبان سے کوئی لفظ طلاق وغیرہ کا بھی نکل گیا ہو ،تو اس شخص کا نکاح صحیح رہایا نہیں؟
(الجواب) ایسے وساوس اور خیالات اور حرکتِ لسانی وہمی سے طلاق واقع نہیں ہوتی ،اور نکاح نہیں ٹوٹتا ،جیسا کہ در مختار میں ہے" وأدنى المخافة الاسماع نفسه ومن يقربه ألخ ويجرى ذلك المذكور في كل ما يتعلق بنطق كسمية على ذبيحة ألخ وعتاق وطلاق ألخ."
فتاوی شامی میں ہے:
"ولا يلزم كون الإضافة صريحة في كلامه؛ لما في البحر" لو قال: طالق،فقيل له من عنيت؟ فقال امرأتي طلقت امرأته."
(کتاب الطلاق، باب صریح الطلاق، ج:3، ص:248، ط:سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144609100608
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن