بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاق کے بعد عدت کا حکم


سوال

آٹھ ماہ سے شوہر سے ہم بستری نہیں کی اور اب طلاق ہو گئی ہے اور اور میرا بڑا اپریشن ہوا ہے بچہ نہ کروانے والا تو کیا مجھ پہ اب بھی عدت کرنا لازم ہے؛ کیوں کہ  بچے پیدا کرنے والا معاملہ ختم ہو گیا ہے؟

جواب

 واضح رہےکہ طلاق یافتہ عورت کی بچہ دانی اگر کسی وجہ سے نکلی ہوئی ہو  تب بھی اس پر عدت گزارنا لازم ہے، کیوں کہ عدت کا صرف ایک ہی مقصد نہیں ہیں، بلکہ عدت کے کئی مقاصد ہیں:

  عدت کا ایک مقصد تو  استبراءِ رحم یعنی بچہ دانی کے خالی اور فارغ ہونے کا یقین ہونا ہے، کیوں کہ اس میں نسب کی حفاظت  ہے۔

  عدت کا دوسرا مقصد رشتہ نکاح کی عظمت و فخامت کا اظہار ہے کہ یہ رشتہ نہ تو انتہائی آسانی سے بن سکتا ہے اور نہ ہی انتہائی آسانی سے ختم ہوسکتا ہے، بلکہ مکمل طور سے ختم ہونے میں بھی وقت لگتا ہے، اگر ایسا نہ ہوتا تو نکاح کو بچوں کا کھیل سمجھ لیا جاتا کہ جب چاہا نکاح کرلیا اور جب چاہا  ایک شوہر سے نکاح توڑ کر فورا دوسرے شوہر سے نکاح کرلیا جاتا۔

عدت کا تیسرا مقصد اس رشتہ کے منقطع ہونے پر ملال وحزن کا اظہار  ہے۔

اور ان مقاصد سے بڑھ کر اصل بات یہ ہے کہ عدت گزارنا اللہ تعالی کا حکم ہے، عورت مطلقہ ہو یا بیوہ، حاملہ ہو یا غیر حاملہ، اسے حیض آتا ہو یا وہ ایسی عمر میں ہو جس میں حیض نہ آتا ہو، ان تمام صورتوں میں عدت کے اَحکام اللہ تعالیٰ  نے قرآنِ کریم میں صراحتاً بیان فرمادیے ہیں، اور ہم سب اللہ رب العزت کے بندے ہیں اور قرآنِ کریم کے منصوص اَحکام کی حکمت و مقصد سمجھ میں نہ آئے تو بھی اسے دل سے تسلیم کرلینا ہی شانِ بندگی ہے۔  نیز جب کسی عورت کی  عمر زیادہ ہونے کی وجہ سے حیض آنا بند ہوجائے تو  وہ بچہ جننے کے قابل بھی نہیں رہتی، اس صورت میں بھی قرآنِ مجید نے اس کی عدت خود بیان کی ہے، اس سے بھی واضح ہوا کہ عدت کا مقصد صرف استبراءِ رحم نہیں ہے۔

لہذا صورتِ  مسئولہ میں آپ پر طلاق کے بعد عدت گزارنا لازم ہے،اگر بچہ دانی کے آپریشن کی وجہ سے ماہواری کا سلسلہ موقوف ہوگیا ہے تو  تین ماہ عدت کا دورانیہ مکمل کرنا ہوگا،اس کے بعد دوسری جگہ نکاح کرنا جائز ہوگا ۔

ملحوظ رہے کہ بچہ دانی    نکالنا اگر بچہ دانی میں کسی شدید نوعیت کی بیماری کی وجہ سے تھا، جس کا علاج اس کے علاوہ نہیں تھا تو اس کی گنجائش تھی، لیکن اگر اولاد کا سلسلہ موقوف کرنے کے لیے بچہ دانی نکالی گئی  ہے تو یہ شرعًا درست نہیں ہے۔

حجۃ اللہ البالغہ میں ہے: 

"قال الله تعالى: {‌والمطلقات ‌يتربصن ‌بأنفسهن ‌ثلاثة ‌قروء} إلى أخر الآيات. اعلم أن العدة كانت من المشهورات المسلمة فيالجاهلية،وكانت مما لا يكادون يتركونه، وكان فيها مصالح كثيرة: منها معرفة براءة رحمها من مائه، لئلا تختلط الأنساب، فان النسب أحد ما يتشاح به، ومنها التنويه بفخامة أمر النكاح حيث لم يكن أمرا ينتظم إلا بجمع رجال، ولا ينفك إلا بانتظار طويل، ولولا ذلك لكان بمنزلة لعب الصبيان ينتظم، ثم يفك في الساعة. ومنها أن مصالح النكاح لاتتم حتى يوطنا أنفسهما على إدامة هذا العقد ظاهرا، فإن حدث حادث يوجب فك النظام لم يكن بد من تحقيق صورة الإدامة في الجملة بأن تتربص مدة تجد لتربصها بالا، وتقاسي لها عناء."

( ج: 2، ص: 219، ط: دار الجيل بيروت)

فتاوی شامی  میں ہے: 

"(ثلاث حيض كوامل) لعدم تجزي الحيضة، فالأولى لتعرف براءة الرحم، والثانية لحرمة النكاح، والثالثة لفضيلة الحرية. (قوله: فالأولى إلخ) بيان لحكمة كونها ثلاثا مع أن مشروعية العدة لتعرف براءة الرحم أي خلوه عن الحمل وذلك يحصل بمرة فبين أن حكمة الثانية لحرمة النكاح أي لإظهار حرمته، واعتباره حيث لم ينقطع أثره بحيضة واحدة في الحرة والأمة، وزيد في الحرة ثالثة لفضيلتها."

(ج:3،ص:505،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144510100602

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں