بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

طلاق، خلع اور فسخ کے متعلق سوالات اور شوہر پر زنا بالجبر کا الزام


سوال

۱) طلاق، خلع اور فسخ نکاح کا غیر مسلم ممالک مثلًا کینیڈا میں کیا طریقۂ کار ہوگا؟ کس ادارہ کو اس معاملہ میں کاروائی کرنے، کاغذ مرتب کرنے، خلع کی ڈگری جاری کرنے یا طلاق نامہ جاری کرنے کی اجازت ہوگی؟

۲) کیا کوئی غیر مسلم ملک مثلًا کینیڈا یا اس ملک کا کوئی قانونی ادارہ  شرعاً کسی خاتون کو شوہر کی اجازت یا اجازت کے بغیر طلاق  نامہ جاری کرنے کا مجاز ہوگا؟ 

۳) کیا قرآن وحدیث میں میاں بیوی کے درمیان زنا بالجبر کا تصور ہے؟یا کیا کوئی مسلمان عورت کسی ۱۲ گریڈ کے کینیڈا کے پولیس والے کو استعمال کرکے  اپنےشو ہر پر کئی سال گزرنے کے بعد یہ الزام لگا سکتی ہے کہ نکاح قائم ہوتے ہوئے   میرے شوہر نے مجھ سے زنا بالجبر کیا ہے؟

۴) کیا کسی غیر مسلم ملک مثلًا کینیڈا کا ایسا قانون جو قرآن و حدیث ، مسلمانوں کے مذہبی اور ثقافتی اقدار کے مخالف ہو کسی مسلمان پر نافذ العمل ہوگا؟

۵) مسلمان علماء کی جماعت کے خلع کے فیصلہ  کی کیا حیثیت ہوگی؟ جب شوہر یہ بات ثابت کردے کہ بیوی نے شوہر کے خلاف خلع کا مقدمہ بیرون ملک پاسپورٹ حاصل کرنے کی نیت سے کیا تھا اور یہ کہ  بیوی نے غیر مسلم ملک کے قانون کو  بد دیانت پولیس والے کی مدد سے استعمال کر کے دو سال بعد اپنے شوہر پر زنا بالجبر کا الزام لگایا تھا (مغربی ممالک  کا ضابطہ فوجداری ۲۷۱) ۔

۶) غیر مسلم ممالک جیسے کینیڈا میں مسلمانوں کے لیے  کیا حل ہےجب وہاں کے مستند علماء حکومت وقت  کے تابع دار ہوں ، حکومت سے منافع حاصل کرتے ہوں ، غیر مسلم ملک اور اس کے قانونی ادارہ کے دباؤ میں کام کرتے ہوں اور شرعی راہ نمائی کرنے میں مسلمانوں کی مدد سے انکار کردیں۔ 

1.How the Divorce, Khula, Faskh e Nikah process works in any non-muslim country like Canada. Who / Which Body is allowed to do the proper process / paperwork / issuance of khula / divorce Certificate? 

2. Any non-muslim country like Canada / legal authority is allowed religiously to process or issue divorce certificate to a Muslim woman with or without permission of husband?

  3. According to Quran and Sunah is there any concept of rape between a Muslim husband and wife under the relationship of nikah / marriage “or” a Muslim woman can blame her own Muslim husband after years using corrupt 12 grade mentally sick Canadian police constables that her own husband raped her under the relationship of nikah / marriage? 

4. Any law of a non-muslim Country like Canada abusing Quran, religious and cultural practices is applicable on a resident (a Muslim by religion)   

5. What will be the decision of the body of authentic Muslim scholars while processing khula, if the Husband will prove that his wife having hidden intention for getting foreign passport, used non-muslim country law with the assistance of corrupt police constables in order to charge her own husband for forcefull rape / sexual Assault (Western Country Criminal Term / Code 271) after two year of the particular incident.

6. What is the solution in a non-muslim country like Canada Where well know authentic muslim scholars are dependent on the government, taking  benefits from the government, works under pressure of non-muslim legal authorities / government and refuse to assist muslims in order to issue a document answering general queries according to Quran / Sunnah.

Transparent / Authentic answers according to Quran and Sunnah required for all above queries please.

جواب

۱) واضح رہے کہ طلاق کا اختیار شریعت نے شوہر کو دیا ہے اور اپنا اختیار استعمال کرکے طلاق صرف شوہر ہی دے سکتا ہے۔ خلع میاں بیوی کے درمیان ایک مالی  معاملہ كي طرح ہے اور  یہ معاملہ دونوں کی رضامندی پر موقوف ہوتا ہے، بیوی شوہر سے  مہر یا کسی مال کے عوض خلع دینے کا مطالبہ کرتی ہے اور شوہر جواب میں مہر یا مال کے عوض خلع دے کر بیوی پر طلاق بائن واقع کرتا ہے۔لہذا جب  خلع یا طلاق کے نافذ کرنے کا اختیار قانونی اداروں کے ہاتھ میں نہیں ہے تو مسلم  یا غیر مسلم ممالک میں اس کا طریقہ کار ایک جیسا ہی ہوگا کہ شوہر جب رضامندی سے بیوی کو طلاق یا خلع دے گا تو خلع یا طلاق واقع ہوجائے گی چاہے قانون فیصلہ کرے یا نہ کرے۔ہاں شوہر کے رضامندی سے   طلاق یا خلع دینے کے بعد اس ملک کی رسمی کاروائی کو پورا کرنے کے لیے  طلاق نامہ یا اس طرح کی چیز کسی مجاز ادارہ سے بنانا جائز ہے،  چاہے مسلمان ملک ہو یا غیر مسلم ملک ہو، چاہے طلاق نامہ یا خلع نامہ بنانے والا مسلمان ہو یا غیر مسلم کیوں کہ طلاق یا خلع شوہر کے کہنے سے نافذ ہوچکی ہے اور مذکورہ طلاق یا خلع نامہ صرف ایک رسمی کار روائی ہے۔

 فسخ نکاح قانونی معاملہ ہےاور چند مخصوص صورتوں (شوہر کا نامرد ہونا، شوہر کا مفقود ہوجانا، شوہر کا غائب ہوجانا ، شوہر کا متعنت ہونا، شوہر کا مجنون ہونا )میں  مسلمان قاضی کو اختیار ہے کہ وہ بیوی کے مطالبے  پر مخصوص شرائط اور طریقہ کار کے مطابق میاں بیوی کے درمیان نکاح فسخ کرے اور اگر کسی غیر مسلم ملک میں مسلمان قاضی نہ ہو تو پھر مسلمانوں کی ایک جماعت (کم از کم تین افراد) شرائط کی رعایت رکھتے ہوئے فسخ نکاح کرسکتی ہے۔ غیر مسلم قاضی یا کسی بھی غیر مسلم حکومت عہدہ دار کا فسخ نکاح کے معاملہ میں فیصلہ شرعًا معتبر نہیں ہے۔

۲) شوہر کی رضامندی کے بغیر مسلم یا غیر مسلم ملک کا کوئی  بھی نمائندہ یا قانونی ادارہ  طلاق نامہ جاری کرنے کا شرعًا مجاز نہیں ہے۔  ہاں  اس صورت میں  کہ  شوہر زبان سے طلاق دے دے او ر شوہر طلاق نامہ اس زبانی طلاق کے وثیقہ کے طور بنوانا چاہتا ہو  یا پھر شوہر  اپنی رضامندی سے   طلاق نامہ بنوا کر اس پر دستخط کرکے لکھی ہوئی طلاق دینا چاہتا ہو تو پھر مسلم یا غیر مسلم ملک کا کوئی نمائندہ یا قانونی ادارہ طلاق نامہ جاری کرسکتا ہے۔

۳) میان بیوی کے درمیان زنا بالجبر کا شرعا کوئی تصور نہیں ہے۔ شریعت میں زنا  کی تعریف یہ ہے کہ غیر منکوحہ سے  جنسی تعلق (فرج داخل میں دخول کرنا) قائم کرنا ، لہذا منکوحہ (بیوی ) سے زنا بالجبر کا شریعت میں کوئی تصور نہیں ہے اور کوئی عورت اپنے شوہر پر شرعا زنا بالجبر کا الزام نہیں لگاسکتی، بلکہ شریعت تو عورت کو اس بات کا پابند کرتی ہے کہ شوہر جب بیوی کو اپنے پاس بلائے (جنسی خواہش پورا کرنے کے لیے)   توبیوی اس کو موقع دے اور انکار نہ کرے یہاں تک کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عورت اگر تندور پر روٹی بھی پکا رہی ہواور ایسے وقت میں بھی شوہر بیوی کو (جنسی خواہش پوری کرنے کے لیے) بلائے  تو بیوی کے لیے شرعا حکم ہے کہ وہ شوہر کے پاس جائے ۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فرشتہ اس عورت پر لعنت بھیجتے ہیں جس کا شوہر اس کو (جنسی خواہش پورا کرنے کے لیے )  بلائے اور وہ اس کو جواب نہ دے۔

یہ بات سمجھنی چاہیے کہ شریعت نے نکاح کو  مر د اور عورت کے لیے جنسی خواہش پورا کرنے کاجائز راستہ بنایا ہےتاکہ معاشرے سے بے حیائی ، فحاشی ختم ہوجائے اور ایک پاکیزہ پاک دامن معاشرہ وجود میں آئے۔ اس طرح کی قانون سازی جس میں بیوی کو شوہر کے خلاف زنا بالجبر کا کیس فائل کرنے کا اختیار دے دیا جائے یہ نکاح کے مقصد کو فوت کردے گا اور معاشرے میں بے حیائی اور فحاشی وجود میں آئے گی اور پاک دامنی ختم ہوجائےگی۔ 

۴) غیر مسلم ممالک میں مسلمانوں پر غیر شرعی قوانین اور مسلمانوں کے مذہبی اور ثقافتی اقدار کے خلاف  قوانین کا قطعاًاطلاق نہیں ہوتا، غیر مسلم ممالک کو چاہیے کہ وہ مسلمانوں کے عدالتی معاملات کے حل کے لیے مسلمان قاضی (جج) متعین کریں اور اس قاضی (جج) کو اسلام کے موافق فیصلہ کرنے کا کلی اختیار دیں۔

نیز اگر کسی غیر مسلم ملک میں مسلمانوں پر غیر اسلامی قوانین کا نفاذ ہوتا ہے اور تو پھر وہاں کے مسلمانوں کو چاہیے کہ ایسے ملک سے ہجرت کر کے مسلمانوں کے ممالک میں رہائش اختیار کریں۔

۵) شق نمبر ایک میں جیسے گزر چکا کہ خلع دینے کا اختیار صرف مرد کو ہے، مسلم یا غیر مسلم ملک کے کسی قاضی یا قانونی ادارہ یا غیر مسلم ملک میں مسلمانوں کی سماعت  کو اس کا اختیار نہیں ہے کہ وہ خلع کی ڈگری جاری کرے۔ ہاں مخصوص صورتوں میں مخصوص شرائط کے ساتھ مسلمان قاضی یا غیر مسلم ممالک میں مسلمانوں کی جماعت (جب مسلم قاضی میسر نہ ہو)  کو بیوی کے مطالبہ پر نکاح فسخ کرنے کا اختیار ہے، لیکن بیوی کی طرف سے  شوہر پر زنا بالجبر کے الزام کی وجہ سے  کسی صورت  فسخ نکاح جائز اور معتبر نہیں ہے۔

۶) غیر مسلم ممالک میں موجود علماء کی ذمہ داری ہے کہ وہ کسی دباؤ کے بغیر وہاں کے مسلمانوں کی درست شرعی راہ نمائی کریں ۔ سائل ایسے علماء کو تلاش کرے اور اگر بالفرض کوئی میسر نہیں ہوتا تو پھر مسلم ممالک کے مستند اداروں اور علماء سے رابطہ کرے۔  

Translation:

1) It should be noted that Islamic Shariah has given right of divorce to husband and only husband can give divorce using his lawful right. Khula (divorce against compensation from wife) is a financial contract between husband and wife and this contract requires consent of both the parties, wife demands khula from husband against dower amount or any other amount and husband with his consent grants her talaq bain (divorce after which complete seperation occurs and only after remarriage couple can live together) by giving her khula in compensation of dower amount or any other amount. So when any legal body does not holds the right of divorce or khula then the procedure for divorce and khula will be the same in muslim and non muslim nations, that is when husband with his consent will give divorce or khula then only divorce or khula will be deemed executed, either legal bodies passes orders or grant certificate or not. Yes, after the execution of divorce or khula from husband obtaining divorce or khula certificate or any other legal document from any legal body for formal purposes is lawful both in muslim and non muslim nations, whether the person making the divorce deed is muslim or non muslim, because divorce or khula had been executed by the words of husband and this divorce or khula certificate is just a formal procedure.

Dissloution of marriage is a legal matter and in some specific circumstances (impotence of husband,  missing husband, stubborness of husband in giving expenses, abnormality of husband) Muslim Judge has the right to dissolve the marriage according to a specific procedure on the demand of wife. And if in a non-muslim country there is no Muslim judge then a group of Muslim people (atleast three) can disolve the marriage according to the proper procedure and conditions. Order of any non-muslim judge or any non-muslim government offical is null and void in matter of disslotion of marriage.

2) Without the consent of husband, any official of a muslim or non muslim nation has no right to grant divorce certificate. Yes if husband gives divorce by saying the words and for the certification of verbal divorce he wants a certificate to be issued or husband with his consent wants a divorce deed to be made and he wants to give wriiten divorce by signing the document then any official of muslim or non muslim nation or any legal body can issue a certificate.

3) There is no concept of rape (forceful adultery) between husband and wife. As per Islamic Shariah (Law) defination of adultery(زنا)is: having sexual intercourse with a women without marital relation, so there is no concept of rape (forceful adultery) between husband and wife and a woman cannot blame her husband for conviction of rape, rather Islamic Shariah binds woman of fulfilling husband sexual desire whenever he demands and she should not negate his demand. The Holy Prophet صلی الله عليه و سلمsaid that even if a woman is sitting on an oven cooking bread she should answer his husband (sexual desire). The Holy Prophet صلی الله عليه و سلم also said that angels curse the woman who didn't answer his husband (sexual desire).

It should be noted that Islamic Shariah has legalized marriage for fulfilling sexual desire lawfully so that indecency and obsenity ends from the society and a virtuous and pure society came into being. Such legaslations in which a wife has the right to file a rape case aganist his husband will void the goal of marriage. Hence indecency and obsenity will came into being and virtue and purity will perish from the society. 

4) Any ruling contradictory to Islamic Shariah or Islamic and Muslim's Cultural traditions cannot be implemented on Muslims in any non-muslim nation. Government of non-muslim nations should appoint Muslim judges for cases related to Muslims and these judges should be given free will to give ruling according to Islam. Hence if any in non-muslim nation rulings cotradictory with Islam are implemented on Muslims then Muslims of that country should migrate to Muslim nations.

5) As stated in No. 1 of the answers that only husband have the right to grant Khula, no judge of muslim or non muslim nation or any other officer or a group of muslim people (in non-muslim nations) can grant Khula decree. Yes in some specific circumstances with certain procedure Muslim Judge or group of muslim people (when there is no muslim judge in non-muslim nations) have the right to dissolve marriage on demand of wife but in circumstances of blame of rape on husband judgement of dissolution of marriage is null and void in any case whatsoever.

6) It is fundamental duty of Islamic Scholars living in non-muslim nations that they should provide guidance to Muslims living there without taking any preasure from government. And in every country there is availability of islamic scholars with true spirit, they provide guidance to Muslims irrespective of any materialistc benefit. Questioner should search such scholars and assuming he didn't find any such scholar he should seek guidance from trusted organisation and scholars in muslim nations.

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:

"وأما ركنه فهو الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول بخلاف النوع الأول."

(کتاب الطلاق ،باب الخلع، ج نمبر ۳ ، ص نمبر ۱۴۵،دار الکتب العلمیۃ)

فتاوی شامی میں ہے:

"وأهله زوج عاقل بالغ مستيقظ»

(قوله وأهله زوج عاقل إلخ) احترز بالزوج عن سيد العبد ووالده الصغير، وبالعاقل ولو حكما عن المجنون والمعتوه والمدهوش والمبرسم والمغمى عليه، بخلاف السكران مضطرا أو مكرها، وبالبالغ عن الصبي ولو مراهقا، وبالمستيقظ عن النائم. وأفاد أنه لا يشترط كونه مسلما صحيحا طائعا عامدا فيقع طلاق العبد والسكران بسبب محظور والكافر والمريض والمكره والهازل والمخطئ كما سيأتي."

(کتاب الطلاق،ج:۳،ص:۲۳۰، ایچ ایم سعید)

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"وعن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إذا دعا الرجل امرأته إلى فراشه فأبت فبات غضبان لعنتها الملائكة حتى تصبح» . متفق عليه. وفي رواية لهما قال: «والذي نفسي بيده ما من رجل يدعو امرأته إلى فراشه فتأبى عليه إلا كان الذي في السماء ساخطا عليها حتى يرضى عنها."

(مرقاۃ المفاتیح ، کتاب النکاح،باب عشرۃ النساء، ج:۵،ص:۲۱۲۱، دارا لفکر)

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"وعن طلق بن علي قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إذا الرجل دعا زوجته لحاجته فلتأته وإن كانت على التنور» . رواه الترمذي."

(مرقاۃ المفاتیح ، کتاب النکاح،باب عشرۃ النساء، ج:۵،ص:۲۱۲۶، دارا لفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وأهله أهل الشهادة) أي أدائها على المسلمين كذا في الحواشي السعدية»

(قوله: وأهله أهل الشهادة) أهل الأول خبر مقدم والثاني مبتدأ مؤخر؛ لأن الجملة الخبرية يحكم فيها بمجهول على معلوم فإذا علم زيد وجهل قيامه تقول زيد القائم، وإذا علم وجهل أنه زيد تقول القائم زيد؛ ولذا قالوا لما كان أوصاف الشهادة أشهر عند الناس عرف أوصافه بأوصافها ثم الضمير في أهله راجع إلى القضاء بمعنى من يصح منه أو بمعنى من يصح توليته كما في البحر. وحاصله: أن شروط الشهادة من الإسلام والعقل والبلوغ والحرية وعدم العمى والحد في قذف شروط لصحة توليته، ولصحة حكمه بعدها ومقتضاه أن تقليد الكافر لا يصح، وإن أسلم

(قوله: ويرد عليه إلخ)....وإن كان المراد من يصح منه القضاء يكون المراد بالشهادة أداءها فقط، فيدخل فيه الكافر المولى على أهل الذمة فإنه يصح قضاؤه عليهم حالا وكونه قاضيا خاصا لا يضر كما لا يضر تخصيص قاضي المسلمين بجماعة معينين؛ لأن المراد من يصح قضاؤه في الجملة وعلى كل فالواجب إسقاط ذلك القيد إلا أن يكون مراده تعريف القاضي الكامل

(قوله: ليحكم بين أهل الذمة) أي حال كفره وإلا فقد علمت أن الكافر يصح توليته مطلقا لكن لا يحكم إلا إذا أسلم. مطلب في حكم القاضي الدرزي والنصراني [تنبيه]

ظهر من كلامهم حكم القاضي المنصوب في بلاد الدروز في القطر الشامي، ويكون درزيا ويكون نصرانيا فكل منهما لا يصح حكمه على المسلمين، فإن الدرزي لا ملة له كالمنافق والزنديق وإن سمى نفسه مسلما وقد أفتى في الخيرية بأنه لا تقبل شهادته على المسلم. والظاهر أنه يصح حكم الدرزي على النصراني وبالعكس تأمل."

(کتاب القضاء، ج نمبر ۵، ص نمبر ۳۵۵، ایچ ایم سعید)

الحیلۃ الناجزۃ میں ہے:

"اور جس جگہ مسلمان حاکم موجود نہ ہو یا مسلمان حاکم کی عدالت میں مقدمہ لے جانے کا قانونا اختیار نہ ہو یا مسلمان حاکم قواعد شرعیہ کے مطابق فیصلہ نہ کرتا ہو تو اس صورت میں فقہ حنفی کے مطابق تو عورت کی علیحدگی کے لیے بغیر خاوند کی طلاق وغیرہ کے کوئی صورت نہیں اور حتی الوسع لازم ہے کہ خلع وغیرہ کی کوشش کرے۔ 

لیکن اگر خاوند کسی طرح نہ مانے یا بوجہ مجنون یا لاپتہ ہونے کے اس سے خلع وغیرہ ممکن نہ ہو اور عورت کو صبر کی ہمت نہ ہو تو مجبورا مذہب مالکیہ کے مطابق دین دار مسلمانوں کی پنچایت میں معاملہ پیش کرنے کی گنجائش ہے، کیونکہ مالکیہ کے مذہب میں قاضی وغیرہ ہونے کی حالت میں یہ صورت بھی جائز ہے کہ محلہ کے دین دار مسلمانوں کی ایک جماعت جس کا عدد کم از کم تین ہو پنچایت کرے اور واقعہ کی تحقیق کر کے شریعت کے موافق حکم کردے تو بھی قضائے قاضی کے قائم مقام ہوجاتا ہے۔"

(ص: ۵۱،امارت شرعیہ ہند)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144601100920

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں