بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

طلاق کی جھوٹی قسم کھانے کے بعد خلافِ ظاہر نیت کرنے کا دعوی کرنے کی صورت میں وقوعِ طلاق کا حکم


سوال

ایک معلم نے عمرکومارا،پھرعمر کے باپ  نےآکراس معلم سے کہاکہ آپ نے میرے بیٹے کوکیوں مارا؟ اس معلم نے انکارکیاکہ میں نے نہیں مارا،پھرعمر کے باپ نے اس معلم سے کہا کہ (آپ پر آپ کی بیوی طلاق ہو جائےاگرآپ نے میرے بیٹے کوماراہو)،اس معلم نے جواب میں (جی ہاں) کہا ،  پھردوبارہ عمرکے باپ نے اس معلم سے کہا کہ (آپ پرآپ کی بیوی طلاق ثلاثہ کے ساتھ طلاق ہوجائے اگر آپ نے میرے بیٹے کوماراہو)اس معلم نے پھر جواب میں (جی ہاں) کہا،  اب یہ معلم کہہ رہاہے کہ میں نے (جی ہاں) کہتے وقت ذہن میں عمر ( مضروب شخص)کے مارنے کی نیت نہیں کی تھی بلکہ میں نے (جی ہاں ) کہتے وقت ذہن میں عمر کے دوسرے بھائی احمد( غیر مضروب شخص)کی نیت کی تھی کہ میں نے احمد کونہیں ماراہے، اورحال یہ ہے کہ عمر کے باپ کی (طلاق دلوانے والے کی) مراد عمر ( مضروب شخص)ہے،  اب پوچھنایہ ہے کہ اس معلم کی نیت معتبرہے یانہیں؟ طلاق ثلاثہ واقع ہوں گی یانہیں؟

ادھر ہمارے علاقے میں بعض علماء کہتے ہیں کہ طلاق واقع نہیں ہو گی، اس لئے کہ دیانۃً اس کی نیت کی تصدیق کی جائے گی اگرچہ اس نے خلاف ظاہرکی نیت کی ہے، امام خصاف وغیرہ کے اقوال سے استدلال کرتے ہیں۔

اوربعض علماء کہتے ہیں کہ طلاق واقع ہو گی ،اس لئے کہ یہ( السوال معاد في الجواب ) او (عرض عليه اليمين فقال نعم) کے تحت آتاہے اس بناء پر طلاق ثلاثہ واقع ہوں گی۔

آپ حضرات سے مؤدبانہ درخواست ہے کہ اس مسئلہ کو تسلی بخش جواب سے حل فرمائیں.

جواب

واضح رہے کہ اگر کوئی شخص کسی دوسرے شخص کو طلاق کی قسم دے اور دوسرا شخص طلاق کی قسم کھالے، لیکن قسم کھلوانے والے نے جس نیت سے قسم دی ہو قسم کھانے والا اس نیت کے بجائے کسی دوسری نیت (جس سے طلاق واقع نہ ہوتی ہو) سے طلاق کی قسم کھالے تو ایسی صورت میں طلاق کی قسم دینے والے شخص کی نیت کا اعتبار کرتے ہوئے طلاق واقع  ہونے کا حکم لگایا جائے گا یا قسم کھانے والے شخص کی نیت کا اعتبار کرتے ہوئے طلاق واقع نہ ہونے کا حکم لگایا جائے گا؟ اس بارے میں فقہائے کرام کے اقوال کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر قسم کھانے والا کسی ایسی بات کی نیت کرتا ہے جو ظاہرِ کلام کے خلاف نہ ہو تو اس کی نیت معتبر ہوگی اور طلاق واقع نہیں ہوگی، لیکن اگر قسم کھانے والا کوئی ایسی نیت کرے جو ظاہرِ کلام کے خلاف ہو تو اس کی نیت معتبر نہیں ہوگی اور ظاہرِ کلام کی رعایت کرتے ہوئے قسم دینے والے شخص کی نیت کا اعتبار کیا جائے گا اور طلاق واقع ہونے کا حکم دیا جائے گا۔ علامہ شامی رحمہ اللہ کی تصریح کے مطابق یہی قول ظاہر الروایہ کے موافق ہے۔

لہٰذا صورت مسئولہ میں جب کہ معلم صاحب نے بچے (عمر) کو مارنے کے باوجود عمرکے والد کے استفسار پر جھوٹ بولتے ہوئے عمرکو مارنے سے انکار کیا اور عمرکے والد نے جب اپنے بیٹے عمرکو مارنے کی صورت میں  معلم کو طلاق کی قسم دی   اور اس کے جواب میں معلم صاحب نے عمر کے بھائی (احمد) کی نیت کرتے  ہوئے قسم کھانے پر هامی بھرتے ہوئے "جی ہاں" کہہ دیا تو اس صورت میں  عمر کے بھائی احمد کی نیت کرنا ظاہرِ کلام کے خلاف نیت ہے؛ کیوں کہ اگرچہ  احمد بھی قسم دینے والے شخص کا بیٹا ہے لیکن چوں کہ بات عمر کی چل رہی تھی اس لیے احمد کی نیت کرنے کا دعویٰ کرنا ظاہر کے خلاف ہے ، نیز چوں کہ معلم مظلوم بھی نہیں ہے، اس لیے ظاہر الروایہ کے مطابق معلم کی نیت کا اعتبار نہیں کیا جائے گا، بلکہ قسم دینے والے شخص (عمر کے والد) کی نیت کا اعتبار کرتے ہوئے (معلم کے عمر کو مارنے کی وجہ سے) معلم کی بیوی پر طلاق واقع ہونے کا حکم لگایا جائے گا۔

لہٰذا  جب عمر کے والد نے پہلی مرتبہ معلم کو ان الفاظ کے ساتھ طلاق کی قسم دی  کہ " آپ پر آپ کی بیوی طلاق ہو جائےاگرآپ نے میرے بیٹے کوماراہو" اور اس کے جواب میں معلم نے کہا کہ "جی ہاں" تو چوں کہ جواب میں سوال کے الفاظ بھی مقدر ہوتے ہیں اس لیے "جی ہاں" کا مطلب ہوا کہ "جی ہاں !اگر میں نے آپ کے بیٹے کو مارا ہے تو مجھ پر میری بیوی طلاق ہوجائے" تو چوں کہ معلم نے قسم دینے والے شخص کے بیٹے عمر کو مارا تھا، اس لیے پہلی مرتبہ "جی ہاں" کہنے کی وجہ سے معلم کی بیوی پر ایک طلاق واقع ہوگئی تھی، پھر جب عمر کے والد نے دوبارہ معلم صاحب کو ان الفاظ سے طلاق کی قسم دی کہ " آپ پرآپ کی بیوی طلاق ثلاثہ کے ساتھ طلاق ہوجائے اگر آپ نے میرے بیٹے کوماراہو" اور اس کے جواب میں معلم نے دوبارہ کہا کہ "جی ہاں" تو معلم کے جواب کا مطلب ہوا کہ "جی ہاں! اگر میں نے آپ کے بیٹے کو مارا ہو تو مجھ پر میری بیوی طلاقِ ثلاثہ کے ساتھ طلاق ہوجائے" تو چوں کہ معلم نے قسم دینے والے شخص کے بیٹے عمر کو مارا تھا اس لیے دوسری مرتبہ "جی ہاں" کہنے کی وجہ سے معلم کی بیوی پر بقیہ دو طلاقیں واقع ہونے کی وجہ سے مجموعی طور پر تین طلاقیں واقع ہوچکی ہیں، دونوں کا نکاح ٹوٹ چکا ہے، زوجین کے درمیان حرمتِ مغلظہ قائم ہوچکی ہے، اب رجوع بھی جائز نہیں ہے اور دوبارہ نکاح کر کے ساتھ رہنا بھی جائز نہیں ہے۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ جن علماء نے طلاق واقع ہونے کا فتویٰ دیا ہے ان کی رائے ظاہر الروایہ کے موافق ہونے کی وجہ سے درست ہے اور جن علماء نے امام خصاف رحمہ اللہ کے قول سے استدلال کرتے ہوئے طلاق واقع نہ ہونے کا فتوی دیا ہے ان سے بظاہر تسامح ہوا ہے ؛ کیوں کہ  علامہ شامی رحمہ اللہ کی تصریحات کے مطابق امام خصاف رحمہ اللہ کا قول (یعنی حالف بالطلاق کی خلافِ ظاہر نیت کو معتبر مان کر اس کی تصدیق کرنا) ظاہر الروایہ کے خلاف ہے اور عام حالات میں مفتیٰ بہ نہیں ہے، اس لیے مذکورہ مسئلہ میں امام خصاف رحمہ اللہ کے قول سے استدلال کرنا درست نہیں ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وقالوا: النية للحالف لو بطلاق أو عتاق وكذا بالله لو مظلوما وإن ظالما فللمستحلف ولا تعلق للقضاء في اليمين بالله.

مطلب: النية للحالف لو بطلاق أو عتاق:

(قوله وقالوا النية للحالف إلخ) قال في الخانية: رجل حلف رجلا فحلف ونوى غير ما يريد المستحلف إن بالطلاق والعتاق ونحوه يعتبر نية الحالف إذا لم ينو الحالف خلاف الظاهر ظالما كان الحالف أو مظلوما، وإن كانت اليمين بالله تعالى، فلو الحالف مظلوما فالنية فيه إليه وإن ظالما يريد إبطال حق الغير اعتبر نية المستحلف وهو قول أبي حنيفة ومحمد. اهـ.

قلت: وتقيده بما إذا لم ينو خلاف الظاهر يدل على أن المراد باعتبار نية الحالف اعتبارها في القضاء، إذ لا خلاف في اعتبار نية ديانة وبه علم الفرق بينه وبين مذهب الخصاف، فإن عنده تعتبر نية في القضاء أيضا ويفتى بقوله إذا كان الحالف مظلوما كما علمت. وفي الهندية عن المحيط ذكر إبراهيم النخعي اليمين على نية الحالف لو مظلوما وعلى نية المستحلف لو ظالما، وبه أخذ أصحابنا مثال الأول: لو أكره على بيع شيء بيده فحلف بالله أنه دفعه لي فلان يعني بائعه لئلا يكره على بيعه لا يكون يمين غموس حقيقة لأنه نوى ما يحتمله لفظه، ولا معنى لأن الغموس ما يقتطع بها حق مسلم، ومثال الثاني: لو ادعى شراء شيء في يد آخر بكذا وأنكر فحلفه بالله ما وجب عليك تسليمه إلي فحلف ونوى التسليم إلى المدعي بالهبة لا بالبيع، فهذا وإن كان صادقا فهو غموس معنى فلا تعتبر نيته. قال الشيخ الإمام خواهر زاده هذا في اليمين بالله تعالى، فلو بالطلاق أو العتاق وهو ظالم أولا ونوى خلاف الظاهر بأن نوى الطلاق عن وثاق أو العتاق عن عمل كذا أو نوى الإخبار فيه كاذبا فإنه يصدق ديانة لأنه نوى محتمل لفظه إلا أنه لو ظالما أثم إثم الغموس لأنه وإن كان ما نوى صدقا حقيقة إلا أن هذا اليمين غموس معنى لأنه قطع بها حق مسلم اهـ ملخصا وقوله: ونوى خلاف الظاهر وقوله بعده فإنه يصدق ديانة يدل على أنه لا يصدق قضاء، وهذا على إطلاقه موافق لظاهر الرواية، أما على مذهب الخصاف فيفرق بين المظلوم فيصدق قضاء أيضا وبين الظالم فلا يصدق.

والحاصل: أن الحلف بطلاق ونحوه تعتبر فيه نية الحالف ظالما أو مظلوما إذا لم ينو خلاف الظاهر كما مر عن الخانية، فلا تطلق زوجته لا قضاء ولا ديانة، بل يأثم لو ظالما إثم الغموس، ولو نوى خلاف الظاهر، فكذلك لكن تعتبر نية ديانة فقط، فلا يصدقه القاضي بل يحكم عليه بوقوع الطلاق إلا إذا كان مظلوما على قول الخصاف ويوافقه ما قدمه الشارح أول الطلاق من أنه لو نوى الطلاق عن وثاق دين إن لم يقرنه بعدد ولو مكرها صدق قضاء أيضا. اهـ. وأما الحالف بالله تعالى فليس للقضاء فيه مدخل لأن الكفارة حقه تعالى لا حق فيها للعبد حتى يرفع الحالف إلى القاضي كما في البحر، لكنه إن كان مظلوما تعتبر نيته فلا يأثم لأنه غير ظالم وقد نوى ما يحتمله لفظه فلم يكن غموسا لا لفظا ولا معنى وإن كان ظالما تعتبر نية المستحلف فيأثم إثم الغموس وإن نوى ما يحتمله لفظه قال ح وهذا مخصص لعموم قولهم نية تخصيص العام تصح ديانة، فاغتنم توضيح هذا المحل."

(كتاب الأيمان،باب اليمين في الأكل والشرب واللبس والكلام، 3/ 785، ط:سعید)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(نية تخصيص العام تصح ديانة) إجماعا، فلو قال: كل امرأة أتزوجها فهي طالق ثم قال: نويت من بلد كذا (لا) يصدق (قضاء) وكذا من غصب دراهم إنسان فلما حلفه الخصم عاما نوى خاصا (به يفتى) خلافا للخصاف. وفي الولوالجية: متى حلفه ظالم وأخذ بقول الخصاف، فلا بأس.

مطلب نية تخصيص العام تصح ديانة لا قضاء خلافا للخصاف:

(قوله نية تخصيص العام تصح ديانة لا قضاء) هذه الجملة بمنزلة التعليل لقوله قبله ولو ضم طعاما أو شرابا أو ثوبا دين لما علمت من أنه إذا ضم ذلك يصير نكرة في سياق الشرط فتعم، والعام تصح فيه نية التخصيص، لكن لا يصدقه القاضي لأنه خلاف الظاهر. واعلم أن الفعل لا يعم ولا يتنوع كما في تلخيص الجامع لأن العموم للأسماء لا للفعل هو المنقول عن سيبويه كذا في شرحه للفارسي. قلت: ويرد عليه ما مر من مسألة الخروج والمساكنة والشراء إلا أن يقال كما مر إن التنوع هناك للفعل بواسطة مصدره لا أصالة تأمل.

[تنبيه] 

قيد بالنية لأن تخصيص العام بالعرف يصح ديانة وقضاء أيضا، وأما الزيادة على اللفظ بالعرف فلا تصح كما أوضحنا ذلك أول باب اليمين في الدخول والخروج، بقي هل يصح تعميم الخاص بالنية؟ قال في الأشباه لم أره. قلت: والظاهر أن تعميمه من الزيادة على اللفظ، وإذا لم تصح الزيادة عليه بالعرف فلا تصح بالنية الأولى لأن العرف ظاهر بخلاف النية تأمل (قوله لا يصدق قضاء) ظاهره أنه يصدق ديانة، وهو مخالف لقوله آنفا لا الصفة ككوفية أو بصرية أي أنه لا يدين فيها كما نبهنا عليه، وما ذكره الشارح مأخوذ من الولوالجية كما ذكره في البحر، ومثله في البزازية حيث قال: كل امرأة من بلد كذا لا يصدق في ظاهر الرواية، وذكر الخصاف أنه يصدق وهذا بناء على جواز تخصيص العام بالنية فالخصاف جوزه وفي الظاهر لا، وعلى هذا لو أخذ منه دراهم وحلفه على أنه ما أخذ منه شيئا ونوى الدنانير فالخصاف جوزه والظاهر خلافه والفتوى على الظاهر، وإذا أخذ بقول الخصاف فيما إذا وقع في يد الظلمة لا بأس به. اهـ. قلت: وهذا كله في القضاء أما في الديانة فنية تخصيص العام صحيحة بالإجماع كما في البحر وقد مر.

والحاصل أن نية تخصيص العام تصح في ظاهر الرواية ديانة فقط، وعند الخصاف تصح قضاء أيضا وهذا إذا كان العام مذكورا وإلا فلا تصح نية تخصيصه أصلا في ظاهر الرواية، وقيل يدين كما قدمه الشارح وقدمنا أنه رواية عن الثاني وأنه اختاره الخصاف فصار حاصل ما اختاره الخصاف أنه في المذكور يصدق ديانة وقضاء وفي غيره ديانة فقط (قوله متى حلفه ظالم وأخذ بقول الخصاف فلا بأس) أقول: المناسب أن يكون أخذ بضم أوله مبنيا للمجهول أي وأخذ القاضي إذ لا معنى لأخذ الحالف به قضاء لأن أخذ الحالف بما نواه غير خاص بقول الخصاف.

مطلب إذا كان الحالف مظلوما يفتى بقول الخصاف:

والحاصل أنه لو حلفه ظالم فحلف ونوى تخصيص العام أو غير ذلك مما هو خلاف الظاهر وعلم القاضي بحاله لا يقضي عليه؛ بل يصدقه أخذا بقول الخصاف، وأما إذا لم يكن مظلوما فلا يصدقه فافهم. قال في الفتاوى الهندية عن الخلاصة ما حاصله: أراد السلطان استحلافه بأنك ما تعلم غرماء فلان وأقرباءه ليأخذ منهم شيئا بلا حق لا يسعه أن يحلف، والحيلة أن يذكر اسم الرجل وينوي غيره وهذا صحيح عند الخصاف لا في ظاهر الرواية فإن كان الحالف مظلوما يفتي بقول الخصاف، ولو حلفه القاضي ما له عليك كذا فحلف وأشار بأصبعه في كمه إلى غير المدعي صدق ديانة لا قضاء. اهـ."

(كتاب الأيمان،باب اليمين في الأكل والشرب واللبس والكلام، 3/ 784، ط:سعید)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(قال إن أكلت أو) قال إن (شربت أو لبست) أو نكحت ونحو ذلك فعبدي حر (ونوى معينا) أي خبزا أو لبنا أو قطنا مثلا (لم يصدق أصلا) فيحنث بأي شيء أكل أو شرب وقيل يدين كما لو نوى كل الأطعمة أو كل مياه العالم حتى لا يحنث أصلا لنيته محتمل كلامه (ولو ضم) لإن أكلت (طعاما أو) شربت (شرابا أو) لبست (ثوبا دين) إذا قال عنيت شيئا دون شيء لأنه ذكر اللفظ العام القابل للتخصيص لأنه نكرة في سياق الشرط فتعم كالنكرة في النفي، والأصل أن النية إنما تصح في الملفوظ إلا في ثلاث فيدين في فعل الخروج والمساكنة وتخصيص الجنس كحبشية أو عربية لا الصفة ككوفية أو بصرية فتح.

مطلب قال إن أكلت أو شربت ونوى معينا لم يصح:

(قوله ونحو ذلك) كما لو حلف لا يركب أو لا يغتسل، أو لا ينكح، أو لا يسكن دار فلان، أو لا يتزوج امرأة ونوى الخيل أو من جنابة امرأة معينة، أو بالإجارة أو الإعارة أو كوفية لم تصح نيته أصلا نهر (قوله أي خبزا أو لبنا إلخ) لف ونشر مرتب، وأفاد أنه ليس المراد بالمعين الفرد الشخصي، بل ما يعم النوعي (قوله لم يصدق أصلا) أي لا قضاء ولا ديانة لأن النية إنما تعمل في الملفوظ لتعين بعض محتملاته وما نواه غير مذكور نصا فلم تصادف النية محلها فلغت نهر (قوله وقيل يدين) هو رواية عن الثاني، واختاره الخصاف لأنه مذكور تقديرا وإن لم يذكر تنصيصا. وأجيب بأن تقديره لضرورة اقتضاء الأكل مأكولا وكذا اللبس والشراب، والمقتضى لا عموم له كذا قالوا. والتحقيق أن هذا ليس من المقتضى لأنه ما يقدر لتصحيح المنطوق بأن يكون الكلام كذبا ظاهرا كرفع الخطإ والنسيان، أو غير صحيح شرعا كأعتق عبدك عني، وقولك لا آكل خال عن ذلك، نعم المفعول أعني المأكول من ضروريات وجود الأكل ومثله ليس من المقتضى بل من حذف المفعول اقتصارا وإلا لزم أن يكون كل كلام مقتضى إذ لا بد أن يستدعي مكانا وزمانا، وحيث كان هذا المصدر ضروريا للفعل لا يصح تخصيصه وإن عم بوقوعه في سياق النفي فإن من ضرورة ثبوت الفعل في النفي ثبوت المصدر العام بدون ثبوت التصرف فيه بالتخصيص فإن عمومه ضرورة تحقق الفعل في النفي فلا يقبل التخصيص، بخلاف إن أكلت أكلا فإن الاسم المذكور صريحا فيقبله وتمامه في الفتح (قوله كما لو نوى إلخ) أي كما يصدق ديانة لو نوى كل الأطعمة أو المياه حتى لو أكل طعاما أو طعامين أو أكثر لا يحنث، وكذا لو شرب مدة عمره لأنه لم يأكل الكل ولم يشرب الكل.

ثم اعلم أنه لا محل لذكر هذه المسألة هنا بل محلها بعد قوله: ولو ضم طعاما إلخ كما فعله في البحر: أي فيما إذا صرح بالمفعول كما نبه عليه ويدل عليه التعليل بقوله لنيته محتمل كلامه لأنه إذا لم يصرح به ويكون معناه لا أوجد أكلا أو شربا أو لبسا فيحنث بكل أكل وجد، ولذا لم تصح نيته المعين منه بخلاف ما إذا صرح به. لأن طعاما المذكور يحتمل البعض والكل فأيهما نوى صح، ولذا نقل في البحر عن المحيط أنه يصدق قضاء أيضا وعلله في البدائع بأنه نوى حقيقة كلامه، ثم نقل عن الكشف أنه إنما يصدق ديانة فقط، وقال: لأنه خلاف الظاهر لأن الإنسان إنما يمنع نفسه عما يقدر عليه والكل ليس في وسعه وفيه تخفيف عليه أيضا وتمامه فيه.

أقول: ويظهر لي ترجيح الأول لأنه إذا نوى البعض إنما يصدق ديانة فقط كما يأتي وهذا لا نزاع فيه، ويلزم منه أن يصدق قضاء وديانة إذا نوى الكل لأن عدم تصديقه في الأول قضاء لأنه خلاف ظاهر اللفظ، فيكون الظاهر العموم وإلا لزم تصديقه قضاء في نية الخصوص. وفي تلخيص الجامع: إن كلمت آدم أو الرجال أو النساء حنث بالفرد إلا أن ينوي الكل، قال شارحه: فيصدق ديانة وقضاء ولا يحنث أبدا لأن الصرف إلى الأدنى عند الإطلاق لتصحيح كلامه، فإذا نوى الكل فقد نوى حقيقة كلامه فيصدق، وقيل: لا يصدق قضاء لأن الحقيقة مهجورة. اهـ. وسيأتي هذا آخر الباب، وتعبيره عن الثاني بقيل يفيد ضعفه وترجيح الأول كما قلنا فافهم (قوله دين) أي يوكل إلى دينه فيما بينه وبين ربه تعالى وأما القاضي فلا يصدقه لأنه خلاف الظاهر، وقدمنا في الطلاق أن المرأة كالقاضي (قوله لأنه نكرة في سياق الشرط فتعم) لأن الحلف في الشرط المثبت يكون على نفيه، فقوله إن لبست ثوبا في معنى لا ألبس ثوبا (قوله إلا في ثلاث فيدين إلخ) يعني لو قال: إن خرجت فعبدي حر ونوى السفر مثلا أو إن ساكنت فلانا فعبدي حر ونوى المساكنة في بيت واحد يدين لأن الخروج في نفسه متنوع إلى سفر وغيره حتى اختلفت أحكامها، فقبلت إرادة أحد نوعيه، وكذا المساكنة متنوعة إلى كاملة هي المساكنة في بيت واحد ومطلقة وهي ما تكون في دار، فإرادة المساكنة في بيت إرادة أخص أنواعها كما في الفتح.

وحاصله: أن النية صحت هنا لكون المصدر متنوعا لا باعتبار عمومه فهو تخصيص أحد نوعي الجنس، وزاد في تلخيص الجامع إن اشتريت ونوى الشراء لنفسه: أي فتصح نيته ديانة، وإن لم يذكر المفعول لتنوع الشراء، فإنه تارة يكون لنفسه. وتارة يكون لموكله ولذا رتب على الأول الملك، وعلى الثاني الملك للموكل وهذا بخلاف ما إذا نوى الخروج لبغداد أو المساكنة بالإجارة أو الشراء لعبد، فإن الفعل فيه غير متنوع، فلم يصح تخصيصه بالنية بدون ذكر كما في شرح التلخيص.

قلت: ونظير ذلك ما إذا قال أنت بائن ونوى الثلاث أو الواحدة يصح بخلاف نية الثنتين لأن البينونة نوعان غليظة وخفيفة. فتصح نية إحداهما بخلاف الثنتين لأنه عدد محض كما مر تقريره في محله، لكنه يصدق في نيته البينونة قضاء. قال في الفتح: وكذا أو حلف لا يتزوج امرأة ونوى كوفية أو بصرية لا يصح لأنه تخصيص الصفة، ولو نوى حبشية أو عربية صحت ديانة لأنه تخصيص الجنس، ثم قال: وكون إرادة نوع ليس تخصيا للعام مما يقبل المنع لأنه لا يخرج من قصر عام على بعض متناولاته. اهـ.

أقول: قد يقال لا عموم هنا ولا تخصيص لعام، وإنما هو إرادة أحد محتملي اللفظ المشترك أو أحد نوعي الجنس كما في التوضيح والتلويح، والأول أولى وبيانه أن الخروج مشترك بين السفر والانفصال من داخل إلى خارج وكذا المساكنة مشتركة بين الكاملة وهي ما تكون في بيت واحد ومطلقة وهي ما تكون في الدار مطلقا، وكذا الشراء فإنه يحتمل الخاص وهو ما يكون له والمطلق، ولكن لما كان المتبادر عرفا هو المعنى الثاني في المسائل الثلاث صدق ديانة فقط في نية المعنى الأول منها، ولا يصدقه القاضي لأنه خلاف الظاهر، وله نظائر في تلخيص الجامع لو قال: إن جامعتك أو باضعتك فهو على الجماع في الفرج، لأنه المتفاهم عرفا إلا أن ينوي ما دونه للاحتمال لكنه لا يصرف عن الظاهر في القضاء فيحنث بهما أي إذا نوى ما دونه يحنث به عملا بإقراره على نفسه بالحنث، ويحنث بالجماع في الفرج لتبادره، وكذا إن وطئتك فعبدي حر إلا أن يعني الوطء بالقدم، وفي إن أتيتك ينوي لاستواء احتمالي الجماع والزيارة، لكن لو نوى الزيارة حنث بالجماع لأنه زيارة وزيادة. اهـ. وبما قررناه: ظهر الفرق بين هذه المسائل المستثناة وبين ما مر في لا آكل ونحوه فإن حقيقة الأكل فيه واحدة فلم تصح نية التخصيص، بخلاف ما إذا صرح بالمفعول فإنه لفظ صريح فيصح تخصيصه، لكن نية التخصيص إنما تصح فيما كان من أفراد ذلك العام وهو المأكولات كالخبز ونحوه دون ما كان من متعلقاته الضرورية كالزمان والمكان والوصف.

فلو نوى في زمان كذا لم يصح ومثله لا أتزوج امرأة ونوى حبشية أو عربية فإنها بعض أفراد العام لأن الإنسان أنواع: حبشي، وعربي، ورومي، باعتبار أصوله الذين ينسب إليهم بخلاف كوفية أو بصرية لأنه وصف ضروري راجع إلى تخصيص المكان وهو غير ملفوظ صريحا فلا تصح نيته كبقية الصفات الضرورية ومثله ما في البحر عن البدائع: لا يكلم هذا الرجل ونوى ما دام قائما لم يصح بخلاف، لا يكلم هذا القائم ونوى ذلك يدين لتخصيصه الملفوظ، وكذا لأضربنه خمسين ونوى سوطا به منه فإنه يبر بأي شيء ضربه وكذا لا أتزوج امرأة أبوها يعمل كذا وكذا فهو باطل اهـ.

وظهر بما قرره أيضا أن الاستثناء في المسائل الثلاث في غير محله لأن النية إنما وجدت في الملفوظ أيضا لأن الفعل فيها صار مشتركا بواسطة اشتراك المصدر تأمل. على أن لا أتزوج امرأة صرح فيه بالمفعول، فهو مثل لا آكل طعاما ولعله ذكره لينبه على أنه إنما يصح فيه تخصيص الجنس فقط دون الوصف، لكن فيه أن لا آكل طعاما كذلك بدليل أنه لو نوى لقمة أو لقمتين لم يصح على أنه يخالفه ما يذكره قريبا فيما لو قال نويت من بلد كذا فإنه يصدق ديانة لا قضاء، ولعل في المسألة قولين يدل عليه أنه في التتارخانية قال وروي عن محمد فيمن قال لا أتزوج امرأة ونوى كوفية أو بصرية إلخ وذكر فيها أيضا إن تزوجت فعبدي حر وقال عنيت فلانة وامرأة من أهل الكوفة لا يصح ولو قال: إن تزوجت امرأة وقال عنيت فلانة يصح اهـ وهذا ظاهر لأنه في الأول لم يذكر المفعول.

ثم اعلم أنه يرد ما مر في يمين الفور حيث خصص بما دلت عليه القرينة كالغداء المدعو إليه ولعل وجهه أن العرف جعل اللفظ كالمصرح به ولا سيما إذا كان جوابا لكلام قبله لأن السؤال معاد فيه فلم يكن تخصيصا للعام غير المذكور بالنية، وهذا الموضع من مشكلات مسائل الأيمان ولم أجد من أعطاه حقه من البيان وما ذكر به هو غاية ما ظهر لفهمي القاصر وفكري الفاتر."

(كتاب الأيمان،باب اليمين في الأكل والشرب واللبس والكلام، 3/ 781، ط:سعید)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"الأصل أن الأيمان مبنية عند الشافعي على الحقيقة اللغوية، وعند مالك على الاستعمال القرآني، وعند أحمد على النية، وعندنا على العرف ما لم ينو ما يحتمله اللفظ فلا حنث في لا يهدم بيتا ببيت العنكبوت إلا بالنية فتح.

مطلب الأيمان مبنية على العرف :

(قوله وعندنا على العرف) لأن المتكلم إنما يتكلم بالكلام العرفي أعني الألفاظ التي يراد بها معانيها التي وضعت لها في العرف كما أن العربي حال كونه بين أهل اللغة إنما يتكلم بالحقائق اللغوية فوجب صرف ألفاظ المتكلم إلى ما عهد أنه المراد بها فتح (قوله فلا حنث إلخ) صرح صاحب الذخيرة والمرغيناني بأنه يحنث بهدم بيت العنكبوت في الفرع المذكور، فمن المشايخ من حكم بأنه خطأ ومنهم من قيد حمل الكلام على العرف بما إذا لم يمكن العمل بحقيقته قال في الفتح: ولا يخفى أنه على هذا يصير ما له وضع لغوي، ووضع عرفي يعتبر معناه اللغوي وإن تكلم به أهل العرف، وهذا يهدم قاعدة حمل الأيمان على العرف لأنه لم يصر المعتبر إلا اللغة إلا ما تعذر، وهذا بعيد إذ لا شك أن المتكلم لا يتكلم إلا بالعرف الذي به التخاطب سواء كان عرف اللغة إن كان من أهلها، أو غيرها إن كان من غيرهم نعم ما وقع مشتركا بين اللغة والعرف تعتبر فيه اللغة أنها العرف فأما الفرع المذكور، فالوجه فيه إن كان نواه في عموم قوله بيتا حنث وإن لم يخطر له فلا لانصراف الكلام إلى المتعارف عند إطلاق لفظ بيت فظهر أن مرادنا بانصراف الكلام إلى العرف إذا لم تكن له نية، وإن كان له نية شيء واللفظ يحتمله انعقد اليمين باعتباره اهـ وتبعه في البحر وغيره."

(كتاب الأيمان،باب اليمين في الدخول والخروج والسكنى والإتيان والركوب وغير ذلك، 3/ 743، ط:سعید)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(الأيمان مبنية على الألفاظ لا على الأغراض فلو) اغتاظ على غيره و (حلف أن لا يشتري له شيئا بفلس فاشترى له بدرهم) أو أكثر (شيئا لم يحنث كمن حلف لا يخرج من الباب أو لا يضربه أسواطا أو ليغدينه اليوم بألف فخرج من السطح وضرب بعضها وغدى برغيف) .

مبحث مهم في تحقيق قولهم: الأيمان مبنية على الألفاظ لا على الأغراض:

(قوله الأيمان مبنية على الألفاظ إلخ) أي الألفاظ العرفية بقرينة ما قبله واحترز به عن القول ببنائها على عرف اللغة أو عرف القرآن ففي حلفه لا يركب دابة ولا يجلس على وتد، لا يحنث بركوبه إنسانا وجلوسه على جبل وإن كان الأول في عرف اللغة دابة، والثاني في القرآن وتدا كما سيأتي وقوله: لا على الأغراض أي المقاصد والنيات، احترز به عن القول ببنائها على النية. فصار الحاصل أن المعتبر إنما هو اللفظ العرفي المسمى، وأما غرض الحالف فإن كان مدلول اللفظ المسمى اعتبر وإن كان زائدا على اللفظ فلا يعتبر، ولهذا قال في تلخيص الجامع الكبير وبالعرف يخص ولا يزاد حتى خص الرأس بما يكبس ولم يرد الملك في تعليق طلاق الأجنبية بالدخول اهـ ومعناه أن اللفظ إذا كان عاما يجوز تخصيصه بالعرف كما لو حلف لا يأكل رأسا فإنه في العرف اسم لما يكبس في التنور ويباع في الأسواق، وهو رأس الغنم دون رأس العصفور ونحوه، فالغرض العرفي يخصص عمومه، فإذا أطلق ينصرف إلى المتعارف، بخلاف الخارجة عن اللفظ كما لو قال لأجنبية إن دخلت الدار فأنت طالق، فإنه يلغو ولا تصح إرادة الملك أي إن دخلت وأنت في نكاحي وإن كان هو المتعارف لأن ذلك غير مذكور، ودلالة العرف لا تأثير لها في جعل غير الملفوظ ملفوظا.

إذا علمت ذلك فاعلم أنه إذا حلف لا يشتري لإنسان شيئا بفلس فاللفظ المسمى وهو الفلس معناه في اللغة والعرف واحد، وهو القطعة من النحاس المضروبة المعلومة فهو اسم خاص معلوم لا يصدق على الدرهم أو الدينار فإذا اشترى له شيئا بدرهم لا يحنث وإن كان الغرض عرفا أن لا يشتري أيضا بدرهم ولا غيره ولكن ذلك زائد على اللفظ المسمى غير داخل في مدلوله فلا تصح إرادته بلفظ الفلس، وكذا لو حلف لا يخرج من الباب، فخرج من السطح لا يحنث، وإن كان الغرض عرفا القرار في الدار وعدم الخروج من السطح أو الطاق أو غيرهما، ولكن ذلك غير المسمى ولا يحنث بالغرض بلا مسمى، وكذا لا يضربه سوطا فضربه بعصا لأن العصا غير مذكورة، وإن كان الغرض لا يؤلمه بأن لا يضربه بعصا ولا غيرها، وكذا ليغدينه بألف فاشترى رغيفا بألف وغداه به لم يحنث وإن كان الغرض أن يغديه بما له قيمة وافية."

(كتاب الأيمان،باب اليمين في الدخول والخروج والسكنى والإتيان والركوب وغير ذلك، 3/ 743، ط:سعید)

البحر الرائق میں ہے:

"وظهر أن مرادنا بانصراف الكلام إلى العرف أنه إذا لم يكن له نية كان موجب الكلام ما هو معنى عرفيا له، وإن كان له نية شيء واللفظ يحتمله انعقد اليمين باعتباره كذا في فتح القدير، وفي الحاوي الحصيري والمعتبر في الأيمان الألفاظ دون الأغراض.

‌‌[منحة الخالق]

(قوله: وفي الحاوي الحصيري والمعتبر في الأيمان الألفاظ دون الأغراض) هذا مخالف لما حققه في الفتح ووفق بينهما في الشرنبلالية بقوله، ولعله قضاء، وما قاله الكمال ديانة فلا مخالفة. اهـ ."

(كتاب الأيمان، باب اليمين في الدخول والخروج والسكنى والإتيان وغير ذلك، 4/ 323،ط:  دار الكتاب الإسلامي)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"عرض عليه اليمين فقال: نعم كان حالفا في الصحيح كذا في الصيرفية وغيرها. قال المصنف: هذا هو المشهور لكن في فوائد شيخنا عن التتارخانية أنه بنعم لا يصير حالفا هو الصحيح، ثم فرع أن ما يقع من التعاليق في المحاكم أن الشاهد يقول للزوج تعليقا فيقول نعم لا يصح على الصحيح.

(قوله :كان حالفا) لأنه إذا قال والله لتفعلن كذا فقال نعم كأنه يصير قال والله لأفعلن لأن ما في السؤال معاد في الجواب كما سيأتي آخر الأيمان (قوله لكن في فوائد شيخنا عن التتارخانية إلخ) ما عزاه إلى التتارخانية خلاف الموجود فيها، فإنه ذكر فيها مسألة ثم قال: وهذه المسألة تشير إلى أن الرجل إذا عرض على غيره يمينا من الأيمان فيقول ذلك الغير نعم أنه يكفي ويصير حالفا بتلك اليمين التي عرضت عليه، وهذا فصل اختلف فيه المتأخرون قال بعضهم لا يكفي وقال بعضهم يكفي، وهذه المسألة دليل عليه وهو الصحيح اهـ فعلم أن قوله في الفوائد: لا يصير حالفا صوابه يصير بدون لا كما نبه عليه السيد الحموي، ويؤيده ما قدمناه عن الخانية قبيل قوله إن فعل كذا فهو كافر وفي آخر أيمان الفتح: ولو قال عليك عهد الله إن فعلت فقال نعم، فالحالف المجيب ولا يمين على المبتدئ ولو نواه اهـ أي لأن قوله عليك صريح في التزام العهد أي اليمين على المخاطب، فلا يمكن أن يكون يمينا على المبتدئ، بخلاف ما إذا قال والله ليفعلن وقال الآخر نعم فإنه إذا نوى المبتدئ التحليف والمجيب الحلف يصير كل منهما حالفا إلخ ما نقله ح عن البحر فراجعه. وفي مجموع النوازل قال لآخر: والله لا أجيء إلى ضيافتك فقال الآخر ولا تجيء إلى ضيافتي فقال نعم يصير حالفا ثانيا اهـ وبه جزم في الذخيرة والفتح؛ وبما ذكرناه مع ما قدمناه عن الخانية علم أنه لا فرق بين التعليق والحلف بالله تعالى فافهم (قوله ثم فرع) من كلام المصنف فالضمير عائد إلى شيخه (قوله أن الشاهد) أي كاتب القاضي وهذا بدل من قوله أن ما يقع (قوله يقول للزوج تعليقا) أي يقول له كلاما فيه تعليق كأن يقول له: إن تزوجت عليها تكن طالقا (قوله لا يصح على الصحيح) أي المنقول عن التتارخانية وقد علمت أنه خلاف ما فيها؛ فالصحيح أنه يصح كما مر عن الصيرفية ولم يثبت اختلاف التصحيح فافهم."

(كتاب الأيمان،باب اليمين في الأكل والشرب واللبس والكلام، 3/ 779، ط:سعید)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"قيل له إن كنت فعلت كذا فامرأتك طالق فقال نعم وقد كان فعل طلقت. وفي الأشباه: القاعدة الحادية عشر ‌السؤال ‌معاد في الجواب قال: امرأة زيد طالق أو عبده حر أو عليه المشي لبيت الله إن فعل كذا وقال زيد نعم كان حالفا إلى آخره. ادعى عليه فحلف بالطلاق ما له عليه شيء فبرهن بمال حنث به يفتى.

(قوله :طلقت) لأنه صار حالفا للقاعدة المذكورة عقبه.

(قوله :به يفتى) وهو قول أبي يوسف خلافا لمحمد، بخلاف ما لو برهن أنه أقرضه ألفا والمسألة بحالها لا يحنث اهـ فتح أي لجواز أنه أقرضه ثم أبرأه أو استوفى منه قبل الدعوى فلم يظهر كذب المدعى عليه.

(كتاب الأيمان،باب اليمين في الضرب والقتل وغير ذلك، 3/ 851، ط:سعید)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"ومن الألفاظ المستعملة: الطلاق يلزمني، والحرام يلزمني، وعلي الطلاق، وعلي الحرام فيقع بلا نية للعرف.

(قوله فيقع بلا نية للعرف) أي فيكون صريحا لا كناية، بدليل عدم اشتراط النية وإن كان الواقع في لفظ الحرام البائن لأن الصريح قد يقع به البائن كما مر، لكن في وقوع البائن به بحث سنذكره في باب الكنايات، وإنما كان ما ذكره صريحا لأنه صار فاشيا في العرف في استعماله في الطلاق لا يعرفون من صيغ الطلاق غيره ولا يحلف به إلا الرجال، وقد مر أن الصريح ما غلب في العرف استعماله في الطلاق بحيث لا يستعمل عرفا إلا فيه من أي لغة كانت، وهذا في عرف زماننا كذلك فوجب اعتباره صريحا كما أفتى المتأخرون في أنت علي حرام بأنه طلاق بائن للعرف بلا نية مع أن المنصوص عليه عند المتقدمين توقفه على النية، ولا ينافي ذلك ما يأتي من أنه لو قال: طلاقك علي لم يقع لأن ذاك عند عدم غلبة العرف. وعلى هذا يحمل ما أفتى به العلامة أبو السعود أفندي مفتي الروم، ومن أن علي الطلاق أو يلزمني الطلاق ليس بصريح ولا كناية: أي لأنه لم يتعارف في زمنه. ولذا قال المصنف في منحه: أنه في ديارنا صار العرف فاشيا في استعماله في الطلاق لا يعرفون من صيغ الطلاق غيره فيجب الإفتاء به من غير نية، كما هو الحكم في الحرام يلزمني وعلي الحرام، وممن صرح بوقوع الطلاق به للتعارف الشيخ قاسم في تصحيحه، وإفتاء أبي السعود مبني على عدم استعماله في ديارهم في الطلاق أصلا كما لا يخفى. اهـ. وما ذكره الشيخ قاسم ذكره قبله شيخه المحقق ابن الهمام في فتح القدير، وتبعه في البحر والنهر. ولسيدي عبد الغني النابلسي رسالة في ذلك سماها [رفع الانغلاق في علي الطلاق] ونقل فيها الوقوع عن بقية المذاهب الثلاثة. أقول: وقد رأيت المسألة منقولة عندنا عن المتقدمين. ففي الذخيرة وعن ابن سلام فيمن قال: إن فعلت كذا فثلاث تطليقات علي أو قال علي واجبات يعتبر عادة أهل البلد هل غلب ذلك في أيمانهم اهـ وكذا ذكرها السروجي في الغاية كما يأتي وما أفتى به في الخيرية من عدم الوقوع تبعا لأبي السعود أفندي فقد رجع عنه وأفتى عقبه بخلافه؛ وقال: أقول الحق. الوقوع به في هذا الزمان لاشتهاره في معنى التطليق، فيجب الرجوع إليه والتعويل عليه عملا بالاحتياط في أمر الفروج. اهـ. [تنبيه] عبارة المحقق ابن الهمام في الفتح هكذا: وقد تعورف في عرفنا في الحلف: الطلاق يلزمني لا أفعل كذا يريد إن فعلته لزم الطلاق ووقع فيجب أن يجري عليهم، لأنه صار بمنزلة قوله إن فعلت فأنت طالق، وكذا تعارف أهل الأرياف الحلف بقوله علي الطلاق لا أفعل اهـ وهذا صريح في أنه تعليق في المعنى على فعل المحلوف عليه بغلبة العرف وإن لم يكن فيه أداة تعليق صريحا. ورأيت التصريح بأن ذلك معتبر في الفصل التاسع عشر من التتارخانية حيث قال: وفي الحاوي عن أبي الحسن الكرخي فيمن اتهم أنه لم يصل الغداة فقال عبده حر أنه قد صلاها وقد تعارفوه شرطا في لسانهم، قال: أجرى أمرهم على الشرط على تعارفهم، كقوله: عبدي حر إن لم أكن صليت الغداة وصلاها لم يعتق كذا هنا. اهـ. وفي البزازية: وإن قال أنت طالق لو دخلت الدار لطلقتك فهذا رجل حلف بطلاق امرأته ليطلقنها إن دخلت الدار بمنزلة قوله عبده حر إن دخلت الدار لأضربنك، فهذا رجل حلف بعتق عبده ليضربنها إن دخلت الدار، فإن دخلت الدار لزمه أن يطلقها، فإن مات أو ماتت فقد فات الشرط في آخر الحياة اهـ أي فيقع الطلاق كما في منية المفتي. قلت: فيصير بمنزلة قوله إن دخلت الدار ولم أطلقك فأنت طالق، وإن دخلت الدار ولم أضربك فعبدي حر وذكر الحنابلة في كتبهم أنه جار مجرى القسم بمنزلة قوله والله فعلت كذا."

(كتاب الطلاق،  باب صريح الطلاق، 3/ 252،ط:سعید)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"فالمحقق كإن كان السماء فوقنا تنجيز."

(كتاب الطلاق ، باب التعليق، 3/ 342، ط: سعید)

البحر الرائق میں ہے:

"وفي الخلاصة والخانية واللغو لا يؤاخذ به صاحبه إلا في الطلاق والعتاق والنذر، وفي فتاوى محمد بن الوليد لو قال إن لم يكن هنا فلان فعلي حجة ولم يكن وكان لا يشك أنه فلان لزمه ذلك اهـ. فقد علمت أن اليمين بالطلاق على غالب الظن إذا تبين خلافه موجب لوقوع الطلاق."

(كتاب الأيمان، 4/ 303،ط:  دار الكتاب الإسلامي)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وأما الحلف بالطلاق، والعتاق، وما أشبه ذلك فما يكون على أمر في المستقبل فهو كاليمين المعقود، وما يكون على أمر في الماضي فلا يتحقق اللغو، والغموس، ولكن إذا كان يعلم خلاف ذلك، أو لا يعلم فالطلاق واقع، وكذلك الحلف بنذر؛ لأن هذا تحقيق، وتنجيز كذا في الإيضاح. ولو قال: إن لم يكن هذا فلانا فعلي حجة، ولم يكن، وكان لا يشك أنه فلان لزمه ذلك كذا في الخلاصة".

(كتاب الايمان، الباب الاول،2/ 52،ط : رشیدیة)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

" وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية."

(کتاب الطلاق، الباب السادس في الرجعة وفيما تحل به المطلقة وما يتصل به، ج: 1/ 472، ط: دار الفکر)  

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144601102553

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں