بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاق کو نکاح پر معلق کرنے کا حکم


سوال

والدنےاپنے لڑکےزیدکےلیےایک جگہ رشتہ مانگ رہا تھا، لڑکے (زید) کو جب معلوم ہوا، تولڑکے نےکہا:’’ میرےلیے زن طلاق ہے، اگرمیں یہاں نکاح کروں‘‘،  اب زید اس جگہ رشتہ کرنے کےلیے راضی ہے، تواس بارے کیا حکم ہے ؟کیا زید کا نکاح اس لڑکی کے ساتھ ہوسکتاہے یا نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں زید کو جب اپنے رشتہ کے متعلق معلوم ہوا  تو زیدنے اس وقت یہ کہا کہ ’’ میرے لیے زن طلاق ہے، اگر میں یہاں نکاح کروں‘‘، تو ایسی صورت میں زید  کے مذکورہ الفاظ معلق طلاق کے تھے؛ لہذا مذکورہ معلق طلاق (جس میں زید نے نکاح کی طرف اضافت بھی کی) کےبعد زید کا نکاح جب اس لڑکی کے ساتھ ہوگا، تو اس لڑکی پر ایک طلاقِ بائن واقع ہوگی،اور شرط پوری ہوجائے گی،  دونوں کا نکاح ختم ہوجائے گا، اور بیوی پر عدت گزارنا بھی لازم نہیں ہے، اس صورت میں اگر زیداسی عورت سے باہمی رضامندی سےدوبارہ  نکاح کرنا چاہے،  تو   از سر نو  نئے مہر اورشرعی گواہوں کی موجودگی میں تجدیدِ  نکاح کرسکتے ہیں، اور آئندہ کے لیے زید کو صرف دو طلاقوں کو اختیار باقی ہوگا، اور اسی عورت سے دوبارہ نکاح کرنے پر مزید کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔

تاہم بغیر طلاق واقع ہوئے زید کا مذکورہ لڑکی سے نکاح کرنے کی ایک صورت یہ ممکن ہے کہ  اگر زید خود نہ پیغامِ نکاح بھیجے، اور نہ ہی کسی کو اپنی طرف سے وکیل بناکربھیجے، یعنی خود کچھ بھی نہ کہے، اور نہ ہی کچھ کرے، بلکہ کوئی تیسرا آدمی ان دونوں (زید اور اس لڑکی) کا نکاح اپنی طرف سے کروائے، اور وہ تیسرا شخص خود ہی نکاح کے تمام امور سرانجام دے، ایجاب و قبول بھی وہ تیسرا شخص کرے،اس کے بعد زید   اس نکاح کوزبانی قبول کرنے کےبجائے مہرادا کرکےیاعملاً حقوقِ زوجیت اداکرکے اپنی قبولیت کا اظہارکردے تواس صورت میں کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"إذا أضاف الطلاق إلى النكاح وقع عقيب النكاح نحو أن يقول لامرأة: إن تزوجتك فأنت طالق أو ‌كل ‌امرأة ‌أتزوجها فهي طالق."

(كتاب الطلاق، الباب الرابع، الفصل الثالث في تعليق الطلاق بكلمة إن وإذا وغيرهما، ج:1، ص:420، ط:رشيديه)

وفیه أیضاً:

"إذا قال: کل امرأۃ أتزوجها فهي طالق، فزوجه فضولی وأجاز بالفعل بأن ساق المهر ونحوہ لا تطلق بخلاف ما إذا وکل به لانتقال العبارۃ الیه."

(کتاب الطلاق، الباب الرابع، الفصل الثاني في تعليق الطلاق بكلمة كل وكلما، ج:1، ص:419، ط:رشيديه)

فتاویٰ شامی میں ہے: 

"(قوله: و كذا كل امرأة) أي إذا قال: كل امرأة أتزوجها طالق، والحيلة فيه ما في البحر من أنه يزوجه فضولي ويجيز بالفعل كسوق الواجب إليها."

(کتاب الطلاق، باب التعلیق، ج:3، ص:345، ط:سعید)

بدائع الصنائع میں ہے:

"ألا ترى أن الطلقة الواحدة قبل الدخول بائنة ……. ولأن الطلاق قبل الدخول لا يتصور إيقاعه إلا بائنا."

(کتاب الطلاق، فصل في طلاق البدعة، ج:3، ص:95،96، ط:دار الكتب العلمية)

الدر المختار میں ہے:

"(وتنحل) اليمين (بعد) وجود (الشرط مطلقا) لكن إن وجد في الملك طلقت وعتق وإلا لا.

وفي الرد:(قوله وتنحل اليمين إلخ) لا تكرار بين هذه وبين قوله فيما سبق وفيها تنحل اليمين ‌إذا ‌وجد ‌الشرط مرة لأن المقصود هناك الانحلال بمرة في غير كلما وهنا مجرد الانحلال."

(کتاب الطلاق، باب التعليق، مطلب في اختلاف الزوجين في وجود الشرط، ج:3، ص:355، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401101438

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں