بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاق نامہ بنوانے سے وقوع طلاق کا حکم


سوال

5 ماہ قبل میری شادی ہوئی ،شادی کے بعد سے ہی ہم میاں بیوی میں ناچاقی پیدا  ہوگئی ،اس کے بعد میری اہلیہ اپنی میکے چلی گئی،وہاں جاکر مجھ سے طلاق کا مطالبہ کیا تو میں نے طلاق دینے سے انکار کردیا ،میں نے یہ کہا کہ میں طلاق نہیں دوں گا تو  انہوں نے مجھ سے خلع کا مطالبہ کیا اور کسی کے ذریعے یہ پیغام بھجوایا کہ تم طلاق نامہ لکھوالو میں یعنی میری اہلیہ اس طلاق نامے پر پہلے  دستخط کرے گی اور اس کے بعد میں دستخط کروں گا ،میں ان کے اس مطالبہ پر راضی ہوگیا اور میں نے  ایک ٹائپنگ والے کی شاپ پر جا کر اپنا نکاح نامہ اسے دیا تو اس نے ان نکاح نامے کے مطابق اپنے سسٹم میں موجود کسی دوسرے طلاق نامے کو دیکھ کر میرے لیے بھی طلاق نامہ تحریر کردیا ،طلاق نامہ بنواتے وقت میں نے طلاق کا عدد ذکر نہیں کیا تھا،  میں نے اس طلاق نامہ کو نہ پڑھا  اور نہ ہی اس پر دستخط کئے  اور نہ ہی میں نے یہ طلاق نامہ اپنی اہلیہ کو بھجوایا،کچھ دن بعد میرے سسرال والوں کو اس بات کا علم ہوا کہ میں نے طلاق نامہ لکھوایا ہے تو انہوں نے اسی بات کو بنیاد بنا کر پورے علاقے میں یہ کہنا شروع کردیا کہ اب دونوں کے درمیان نکاح ختم ہوگیا ہے۔

1)کیا واقعی میرا نکاح ٹوٹ گیا ہے یا نہیں اور طلاق کتنی ہوئی؟

2)میرے ذمہ پورا  مہر جو کہ پچاس ہزار ہے ادا کرنا لازم ہے یا نہیں ؟

3)اس کے علاوہ اور کچھ لازم ہے یا نہیں؟ جبکہ وہ ہم سے ایک لاکھ جرمانہ کا مطالبہ کرتے ہیں شادی کے خرچہ کے طور پر ،آیا یہ میرے ذمہ لازم ہے؟

جواب

1.صورت مسئولہ میں اگرسائل نے طلاق نامہ علیحدگی کی غرض سے بنوایا ہو اور اس کو یہ علم تھا، یا  کسی  قرینہ سے  معلوم تھا کہ  طلاق نامہ تین طلاقوں پر مشتمل ہوتا ہے تو تین طلاق والا طلاق نامہ بنوانے کے لیے حکم دیتے ہی اس کی بیوی  پر تین طلاقیں واقع ہوگئی ہیں،دستخط کرنا ضروری نہیں ہے اور بیوی اس پر حرمت مغلظہ کے ساتھ حرام ہوگئی ہے،اور اگر سائل کا  بیان حقائق پر مبنی ہے کہ اس نے ٹائپنگ والے کو طلاق نامہ بنانے کاکہا ہے اور طلاق کا عدد ذکر نہیں کیا ،اور نہ ہی اسے علم تھا کہ طلاق نامہ میں تین طلاق ہوتی ہے ،لیکن   ٹائپنگ والے نے اپنی طرف سےتین طلاقوں پر مشتمل طلاق نامہ بنایا ،اور  نہ ہی  اس پر دستخط کیے ، تو اس صورت میں محض طلاق نامہ بنانے کے لیے کہنے کی وجہ سے  سائل کی بیوی کو ایک طلاق رجعی واقع ہوگی ،عدت میں رجوع کرنے سے نکاح برقرار رہے گا اور آئندہ  کے لیے شوہر کے پاس صرف دو طلاقوں کا اختیار باقی رہ جائے گا ،اس کے بعد اگر مزید دو طلاقیں دیں تو مجموعی طور پر تین طلاقیں ہوکرطلاق مغلظہ ہوجائے گی اور بیوی اپنے شوہر پر حرام ہوجائے گی،اور اگر عدت میں رجوع نہیں کیا اور عدت گزر گئی تو نکاح ختم ہوجائے گا اور مطلقہ کہیں اور نکاح کرسکے گی۔

2.سائل پر پورا مہر جو کہ پچاس ہزار ہے بیوی کو ادا کرنا لازم ہے۔

3. طلاق کے بعد عدت کے دوران بیوی کا نان نفقہ شوہر پر لازم ہوگا ، باقی لڑکی والوں کا شادی کے موقع پر  خرچ کی ہوئی رقم کا لڑکے سے مطالبہ کرنا  جائز نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"ولو استكتب من آخر كتابا بطلاقها وقرأه على الزوج فأخذه الزوج وختمه وعنونه وبعث به إليها فأتاها وقع إن أقر الزوج أنه كتابه أو قال للرجل: ابعث به إليها، أو قال له: اكتب نسخة وابعث بها إليها، وإن لم يقر أنه كتابه ولم تقم بينة لكنه وصف الأمر على وجهه لا تطلق قضاء ولا ديانة، وكذا كل كتاب لم يكتبه بخطه ولم يمله بنفسه لا يقع الطلاق ما لم يقر أنه كتابه اهـ."

(كتاب الطلاق، ج:3، ص:246، ط:سعيد)

و فيه أيضاً:

"ولو قال للكاتب: اكتب طلاق امرأتي كان إقرارا بالطلاق وإن لم يكتب."

(كتاب الطلاق، مطلب في الطلاق بالكتابة ، ج:3، ص:246، ط:سعيد )

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"والمهر يتأكد بأحد معان ثلاثة: الدخول، والخلوة الصحيحة، وموت أحد الزوجين سواء كان مسمى أو مهر المثل حتى لا يسقط منه شيء بعد ذلك إلا بالإبراء من صاحب الحق، كذا في البدائع."

(باب المهر،فصل فيما يتأكد به المهر، ج:1، ص: 303، ط:رشيدية)

و فيه أيضاً:

"لو جهز ابنته وسلمه إليها ليس له في الاستحسان استرداد منها وعليه الفتوى."

(باب المهر،الفصل السادس عشر في جهاز البنت، ج:1، ص:327، ط:رشيدية)

فتاوى هنديہ میں ہے:

" المعتدة عن الطلاق تستحق النفقة والسكنى كان الطلاق رجعيا أو بائنا، أو ثلاثا حاملا كانت المرأة، أو لم تكن كذا في فتاوى قاضي خان الأصل أن الفرقة متى كانت من جهة الزوج فلها النفقة، وإن كانت من جهة المرأة إن كانت بحق لها النفقة، وإن كانت بمعصية لا نفقة لها، وإن كانت بمعنى من جهة غيرها فلها النفقة فللملاعنة النفقة والسكنى والمبانة بالخلع والإيلاء وردة الزوج ومجامعة الزوج أمها تستحق النفقة، وكذا امرأة العنين إذا اختارت الفرقة، وكذا أم الولد والمدبر إذا أعتقا، وهما عند زوجيهما، وقد بوأهما المولى بيتا واختارتا الفرقة، وكذا الصغيرة إذا أدركت اختارت نفسها، وكذا الفرقة لعدم الكفاءة بعد الدخول كذا في الخلاصة."

(كتاب الطلاق، الباب السابع عشر في النفقات،الفصل الثالث في نفقة المعتدة،1/ 557،ط:رشيدية)

فتاوی مفتی محمود میں ہے:

’’چوں کہ طلاق نامہ لکھنے والے نے کہا کہ میرا طلاق نامہ لکھ دو ،لہذا یہ الفاظ اقرار طلاق ہوں گے ،الفاظ سے ایک طلاقِ رجعی واقع ہوجائے گی ،خواہ لکھنے والا لکھے یا نہ لکھے اور جب لکھوانے والا صرف مذکورہ الفاظ کہے اور کاتب نے تین لکھ دی ،لکھوانے والے نے نہ خود پڑھا تھا اور نہ اس کو سنایا تھا اور طالق تین کا اقرار بھی نہیں کرتا،تو تین واقع نہ ہوں گی۔‘‘

( کتاب الطلاق،تحریری طلاق کا بیان ،ج:6، ص:229، ط:جمعیت پبلیکیشنز )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144511102275

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں