شوہر نے بیوی کو ان الفاظ میں تین طلاقیں دیں" تومجھ پر طلاق ہے،تومجھ پر طلاق ہے،تومجھ پر طلاق ہے"۔شوہر اور بیوی دونوں طلاق کے ہو جانےکااقراربھی کر رہےہیں ۔اور خلوت صحیحہ بھی ہوچکی ہے،البتہ انکے نکاح کےوقت شوہرنےمہر میں ایک کمرہ اورپانچ لاکھ روپےمقررکیا تھااور اب تک ادا نہیں کیا گیا ہے۔اب شوہرمہر کے دینے سےانکار کر رہا ہے۔بیوی کے لیے کتنامہر بنتا ہےرہنمائی فرمائیں؟
صورت مسئولہ میں نکاح کے وقت مقرر کردہ حق مہر اگر ابھی تک ادا نہ کیا ہو تو طلاق کے بعد طے شدہ (پانچ لاکھ روپے اور ایک کمرہ) مکمل حق مہر مطلقہ کا حق ہے جس کی ادئیگی شرعاً اس کے شوہر پر لازم ہے۔شوہرکا حقِ مہر ادا کرنےسےانکار کرناشرعاًناجائز ہے، یہ عورت کا حق ہے، شوہر جب تک نہیں دے گا ، یہ اس کے ذمہ سے ساقط نہیں ہوگا۔اگر دنیا میں نہیں دیا توآخرت میں دینا پڑے گا جو آسان ہرگز نہیں ہوگا۔
بدائع الصنائع میں ہے:
"وروي عن رسول اﷲ صلی اﷲ علیه وسلم، أنه قال من کشف خمار امرأته ونظر إلیها وجب الصداق دخل بها، أو لم یدخل وهذا نص في الباب".
( کتاب النکاح، فصل و أما بیان مایتأکد به المهر، ج:2،ص:292، ط: دار الكتب العلمية)
المبسوط للسرخسی میں ہے:
"و الدليل عليه أنها تحبس نفسها؛ لاستيفاء المهر، و لاتحبس المبدل إلا ببدل واجب و إن بعد الدخول بها يجب. و لا وجه لإنكاره؛ لأنه منصوص عليه في القرآن."
(كتاب النكاح، باب المهور،ج:5، ص: 63، ط: بيروت)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"المهر يتأكد بأحد معان ثلاثة: الدخول، والخلوة الصحيحة، وموت أحد الزوجين سواء كان مسمى أو مهر المثل حتى لا يسقط منه شيء بعد ذلك إلا بالإبراءمن صاحب الحق، كذا في البدائع."
(كتاب النكاح، الباب السابع في المهر، الفصل الثاني فيمايتاكد به المهر، ج: 1، صفحہ: 304، ط: دارالفکر)
تنویر الأبصار مع الدرالمختار میں ہے:
"(وتجب) العشرة (إن سماها أو دونها و) يجب (الأكثر منها إن سمى) الأكثر ويتأكد (عند وطء أو خلوة صحت) من الزوج (أو موت أحدهما) أو تزوج ثانيا في العدة أو إزالة بكارتها بنحو حجر بخلاف إزالتها بدفعة فإنه يجب النصف بطلاق قبل وطء ولو الدفع من أجنبي، فعلى الأجنبي أيضا نصف مهر مثلها إن طلقت قبل الدخول وإلا فكله نهر بحثاأو إزالة بكارتها بنحو حجر بخلاف إزالتها بدفعة فإنه يجب النصف بطلاق قبل وطء ولو الدفع من أجنبي، فعلى الأجنبي أيضا نصف مهر مثلها إن طلقت قبل الدخول وإلا فكله نهر بحثا."
(كتاب النكاح، باب المهر:ج:3،ص :102 ،103، 104، ط: سعيد)
سنن ترمذی میں ہے:
"عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «أتدرون من المفلس»؟ قالوا: المفلس فينا يا رسول الله من لا درهم له ولا متاع، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «المفلس من أمتي من يأتي يوم القيامة بصلاته وصيامه وزكاته، ويأتي قد شتم هذا وقذف هذا، وأكل مال هذا، وسفك دم هذا، وضرب هذا فيقعد فيقتص هذا من حسناته، وهذا من حسناته، فإن فنيت حسناته قبل أن يقتص ما عليه من الخطايا أخذ من خطاياهم فطرح عليه ثم طرح في النار."
(باب ما جاء في شان الحساب والقصاص، ج:4، ص:218، ط:دار الغرب الإسلامي - بيروت)
"ترجمہ :حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ،کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہوتا ہے؟ صحابہ نے جواب دیا: ہم میں سے مفلس وہ ہے جس کے پاس کوئی روپیہ پیسہ اور ساز و سامان نہ ہو،اس پر آپ ﷺ نے فرمایا: میری امت کا مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن نماز، روزہ اور زکوۃ جیسے اعمال لے کر آئے گا،تاہم اس نے کسی کو گالی دی ہو گی، کسی پر تہمت دھری ہو گی، کسی کا مال (ناحق) کھایا ہو گا اور کسی کا خون بہایا ہو گا اور کسی کو مارا ہو گا،چنانچہ اس کی نیکیاں ان لوگوں کو دے دی جائیں گی، اور اگر اس کی نیکیاں ختم ہو گئیں ،اور اس پر واجب الاداء حقوق ابھی باقی رہے، تو ان لوگوں کے گناہ لے کر اس کے کھاتے میں ڈال دیے جائیں گے، اور پھر اسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔"
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144609100242
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن