بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 ذو الحجة 1445ھ 01 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاق رجعی کے بعد زبانی رجوع کا حکم اور خلع کی شرعی حیثیت اور اس کا طریقہ


سوال

1۔میری شادی 24 نومبر 2010 ء کو  ہم دونوں کی رضامندی سے ہوئی ،میری اولاد میں ایک لڑکا اور ایک لڑکی ہے،شادی کے کچھ عرصہ بعد  تیسرے بندے کی مداخلت کی وجہ سے ہمارے درمیان نوک جھوک ہونے لگی،ایک دن ہمارا لڑائی جھگڑا ہوا،میں نے ڈرانے کی نیت سے ہاتھ اٹھایا،لیکن مارا نہیں،اس کے بعد اس نے ماں کے گھر آنا جانا شروع کردیا اور گھر کے کام کاج کرنا بھی چھوڑ دیے،میں نے ہر طرح سے سمجھانے کی کوشش کی، مگر وہ کسی صورت ماننے کو تیار نہیں  تھی،آخر کار میں نے نہ چاہتے ہوئے ان الفاظ سے اپنی بیوی کو ایک طلاق دی کہ"میں تمھیں ایک طلاق دے رہا ہوں تاکہ تم سدھر جاؤ"،اس سے میرا ارادہ بیوی کو ڈرانے کا تھا،دوسرے دن میں نے رجوع کرلیا، اور اس رجوع کرنے پر علاقہ کے بعض معززین کو گواہ بھی بنایا، رجوع ان الفاظ سے کیا کہ وہ میرے نکاح میں ہے اور میں نے رجوع کر لیا ہے" اس کے کچھ عرصے بعد  میرے اور اس کے گھر والوں کے درمیان جھگڑا ہوا ،اور اس کے گھر والے اسے لے کر چلے گئے،کچھ عرصہ بعد میں نے دوسرا نکاح کرلیا،میرے سسرال والوں نے فتوی  لیا کہ میں نے رجوع نہیں کیا کیوں کہ وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ جب تک ہمبستری نہ ہو رجوع نہیں ہوتا ،حالاں کہ میرے پاس رجوع کرنے کے گواہ بھی موجود ہیں  اور اگلے دن ہم ساتھ بھی سوئے تھے لیکن جسمانی تعلق نہیں ہوا تھا،کچھ لوگوں نے میرے سسرال والوں کے دماغ میں یہ بات ڈال دی  کہ طلاق ہوگئی ہے،جب کہ رجوع کرلیا تھا،میں اپنی بیوی کو اب بھی رکھنے کے لیے تیار ہوں،اس کے حقوق اور جائز اخراجات  دینے کو تیار ہوں،بشرطیکہ وہ بھی میرے حقوق ادا کرے۔شریعت کی روشنی میں بتائیں کہ میری بیوی میرے نکاح میں ہے یا نہیں ؟

2۔نیز خلع کی شرعی حیثیت کیا ہے اور خلع کیسے ہوتی ہے؟

جواب

1۔صورت مسئولہ میں سائل نے اگر واقعۃً بیوی کو مذکورہ الفاظ سے طلاق دینے کے بعد ان الفاظ سے رجوع کیا کہ "وہ میرے نکاح میں ہے اور میں نے رجوع کر لیا ہے" تو شرعا ًرجوع  ہوگیا تھا اور بیوی بدستور سائل کے نکاح میں ہے،سسرال والوں کا یہ سمجھنا کہ رجوع کے لیے ہمبستری ضروری ہے شرعا ًدرست نہیں ہے۔

2۔میاں بیوی کے درمیان ہم آہنگی نہ ہونے کے سبب  اور صلح کی ہر ممکن کوشش کرنے کے بعد بھی نباہ کی کوئی صورت نہ بن سکے تو بیوی کا خلع لینا جائز ہے ۔واضح رہے کہخلع  میاں بیوی  دونوں کی رضامندی سے ہوتی ہے،بیوی اپنا حق مہر معاف کرنے یا واپس کرنے کی شرط پر شوہر سے خلع کا مطالبہ کرتی ہے  اور شوہر اس کو قبول کر کے  خلع دیتا ہے،تو خلع واقع ہوجاتی ہے ۔

واضح رہے کہ خلع ایک طلاق بائن کے حکم میں ہوتی ہے،اس سے نکاح ٹوٹ جاتا ہے، خلع کے بعد رجوع جائز نہیں ہوتاالبتہ خلع کے بعد دوبارہ نئے مہر کے ساتھ گواہوں کی موجودگی میں نکاح ہو سکتا ہے ۔

وفي الفتاوى الهندية:

"الرجعة إبقاء النكاح على ما كان ما دامت في العدة كذا في التبيين وهي على ضربين: سني وبدعي (فالسني) أن يراجعها بالقول ويشهد على رجعتها شاهدين ويعلمها بذلك فإذا راجعها بالقول نحو أن يقول لها: راجعتك أو راجعت امرأتي ولم يشهد على ذلك أو أشهد ولم يعلمها بذلك فهو بدعي مخالف للسنة والرجعة صحيحة وإن راجعها بالفعل مثل أن يطأها أو يقبلها بشهوة أو ينظر إلى فرجها بشهوة فإنه يصير مراجعا عندنا إلا أنه يكره له ذلك ويستحب أن يراجعها بعد ذلك بالإشهاد كذا في الجوهرة النيرة۔"

(كتاب الطلاق،الباب السادس/1/ 468/ط:رشیدیہ)

وفی المبسوط للسرخسی:

"والخلع جائز عند السلطان وغیره لأنه عقد یعتمد التراضی کسائر العقود وهو بمنزلة الطلاق بعوض۔"

 (باب الخلع،6/ 173،ط:دار الفکر)

وفي الشامية:

"(قوله: للشقاق) أي لوجود الشقاق وهو الاختلاف والتخاصم. وفي القهستاني عن شرح الطحاوي: السنة إذا وقع بين الزوجين اختلاف أن يجتمع أهلهما ليصلحوا بينهما، فإن لم يصطلحا جاز الطلاق والخلع. اهـ. ط، وهذا هو الحكم المذكور في الآية، وقد أوضح الكلام عليه في الفتح آخر الباب۔"

(باب الخلع،3 /441،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304100900

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں