میری شادی کےبعدمیری ساس بہت بیمارتھی،بسترمرگ پرتھی ،اورمیرےشوہرکاکسی اورلڑکی کےساتھ چکر چل رہاتھا،گھرپرتوجہ نہیں دےرہاتھا،اورکھلانےپلانےمیں روک ٹوک کررہاتھا،بہت مارپیٹ کرتاتھا،یہاں تک کہ میرے بچے کواس طرح ضائع کیاکہ اس دوران علاج معالجہ کاکوئی خیال نہیں رکھا،جب میں امید سے تھی تومیں خالہ کےگھرگئی ،کیوں کہ میرےوالدین کامیرے بچپن میں انتقال ہواتھاتو انہوں نے مجھے پالا تھا،لہذامیں خالہ پربوجھ نہیں بنناچاہتی تھی،تومیں نے اپنے شوہرکوبارباربتایاکہ مجھے اپنے گھرلےجاؤ،جس کےجواب میں وہ انکارکرتاتھا،تقریباًڈیڑھ سال پہلے اس نے مجھے چاردفعہ کہاکہ”تم میری طرف سے آزاد ہو“۔
اب سوال یہ ہے کہ کیامذکورہ الفاظ سے طلاق واقع ہوگئی ہے یانہیں؟
اورکیامیں کہیں اورنکاح کرسکتی ہوں یانہیں؟
صورتِ مسئولہ میں اگرواقعتاًسائلہ کواس کےشوہرنے چار مرتبہ یہ کہا ہےکہ ”تم میری طرف سے آزاد ہو“ تو پہلی مرتبہ ”تم میری طرف سے آزاد ہو“ کہنے سے بیوی پر ایک طلاقِ بائن واقع ہوگئی، اور نکاح ختم ہوگیا ہے، اس کے بعد جو تین مرتبہ ”تم میری طرف سے آزاد ہو“ کہا تو اس سے مزید کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔
اب اگر میاں بیوی دوبارہ ساتھ رہنا چاہیں تو دو گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ تجدید نکاح کرکے رہ سکتے ہیں، اور آئندہ کے لیے شوہر کو دو طلاق کا حق حاصل ہوگا،اوراگرکہیں اورنکاح کرناچاہے توعورت اس میں آزاد ہے،اسے کوئی منع نہیں کرسکتا۔
فتاوی شامی میں ہے:
"وكونه التحق بالصريح للعرف لاينافي وقوع البائن به، فإن الصريح قد يقع به البائن كتطليقة شديدة ونحوه: كما أن بعض الكنايات قد يقع به الرجعي، مثل اعتدي واستبرئي رحمك وأنت واحدة.
والحاصل أنه لما تعورف به الطلاق صار معناه تحريم الزوجة، وتحريمها لا يكون إلا بالبائن، هذا غاية ما ظهر لي في هذا المقام، وعليه فلا حاجة إلى ما أجاب به في البزازية من أن المتعارف به إيقاع البائن، لما علمت مما يرد عليه، والله سبحانه وتعالى أعلم".
(کتاب الطلاق، باب الکنایۃ، ج:3، ص:299، ط:سعید)
وفیہ ایضا:
"( الصريح يلحق الصريح و) يلحق ( البائن ) بشرط العدة ( والبائن يلحق الصريح ) الصريح ما لايحتاج إلى نية بائناً كان الواقع به أو رجعياً ··· فتح ( لا ) يلحق البائن (البائن)".
"(قوله: لايلحق البائن البائن ) المراد بالبائن الذي لايلحق هو ما كان بلفظ الكناية؛ لأنه هو الذي ليس ظاهراً في إنشاء الطلاق، كذا في الفتح. وقيد بقوله: الذي لايلحق إشارة إلى أن البائن الموقع أولاً أعم من كونه بلفظ الكناية أو بلفظ الصريح المفيد للبينونة كالطلاق على مال وحينئذٍ فيكون المراد بالصريح في الجملة الثانية أعني قولهم: والبائن يلحق الصريح لا البائن هو الصريح الرجعي فقط دون الصريح البائن ... ومنها ما في الكافي للحاكم الشهيد الذي هو جمع كلام محمد في كتبه ظاهر الرواية حيث قال: وإذا طلقها تطليقةً بائنةً ثم قال لها في عدتها: أنت علي حرام أو خلية أو برية أو بائن أو بتة أو شبه ذلك وهو يريد به الطلاق لم يقع عليها شيء؛ لأنه صادق في قوله: هي علي حرام وهي مني بائن اهـ أي لأنه يمكن جعل الثاني خبراً عن الأول، وظاهر قوله: طلقها تطليقةً بائنةً أن المراد به الصريح البائن بقرينة مقابلته له بألفاظ الكناية، تأمل".
(كتاب الطلاق، باب الكناية، ج:3، ص:306، ط:سعيد)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144602101658
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن