زید کی اپنی جاب ہے، مہینے کی چالیس ہزار تنخواہ ہے، زید حافظ قرآن ہے،لیکن منزل کچی ہے، اب عمرو، زید سے کہتاہے کہ تین مہینے کے لیے اپنی جاب چھوڑدو، تین مہینے کی تنخواہ میں اپنی طرف سے دوں گا، اب عمرو جو رقم اپنی طرف دے رہا ہے، وہ زکوٰۃ کی مد میں دے رہا ہے، تو کیا اس سے عمرو کی زکوٰۃ ادا ہوجائے گی، جب کہ زید زکوٰۃ کا مستحق بھی ہے، عمرو کا یہ عمل محض خیرخواہی کی بناء پر ہے۔
وضاحت: زید عمرو کا ملازم نہیں ہے۔
واضح رہے کہ زکوٰۃ کی رقم مستحقِ زکوۃ، غیرسید شخص کو بلاعوض خالص اللہ کی رضاکےلیے دے کر مالک وقابض بنانے سے زکوٰۃ ادا ہوگی ، زکوٰۃ کی رقم کسی چیز کے عوض میں دینا مثلاً کسی ملازم کو تنخواہ کی مد میں زکوٰۃ دینا، یا غیر مستحقِ شخص (سید ، صاحب نصاب نہ ہو ) کو زکوٰۃ دینے سے زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی ، بلکہ زکوٰۃ دینے والے پر دوبارہ اس رقم کی زکوٰۃ ادا کرنا واجب ہے، مستحقِ زکوٰۃ کے صاحبِ نصاب نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ایسا مسلمان شخص جو غریب اور ضروت مند ہو اور اس کی ملکیت میں اس کی ضرورتِ اصلیہ سے زائد ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر رقم نہ ہو ، اور نہ ہی اس قدر ضرورت و استعمال سے زائد سامان ہو کہ جس کی مالیت نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت) کے برابر بنتی ہے ، تو اس شخص کے لیے زکوٰۃ لینا جائز ہے، اور اس کو زکوٰۃ دینے سے زکوٰۃ ادا ہوجائے گی۔ اگر کسی شخص کے پاس ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کے برابررقم ہو، یا ساڑھے سات تولہ سونا ہو، یا ضرورت سے زائد سامان ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر ہو، یا ان میں بعض کا مجموعہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر ہو تو اس کو زکوٰۃ دینا اور اس کے لیے زکوٰۃ لینا جائز نہیں ہے۔
مذکورہ بالا تمہید کی رو سے صورتِ مسئولہ میں عمرو کا یہ شرط لگانا ، کہ آپ تین مہینے کے لیے جاب چھوڑدو ، تین مہینے کی تنخواہ میں اپنی طرف سے زکوٰۃ کی مد میں دوں گا ، درست نہیں ہے، زکوٰۃ بغیر کسی شرط محض اللہ کی رضا کے لیے دی جائے ، اس لیے زید کو جاب چھوڑنے کی شرط پر تین مہینے کی تنخواہ کی مد میں زکوٰۃ کی رقم دینے سے زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی ،عمرو اگر واقعۃً زید کی بھلائی چاہتاہو، تو زید کو زکوٰۃ کی رقم مدد کے طور پر دے، تنخواہ کے طور پر نہیں ، بشر ط کہ زید زکوٰۃ کا مستحق ہو۔
الفتاوى الهنديةمیں ہے:
"أما تفسيرها فهي تمليك المال من فقير مسلم غير هاشمي، ولا مولاه بشرط قطع المنفعة عن المملك من كل وجه لله - تعالى - هذا في الشرع كذا في التبيين."
(کتاب الزکاۃ، الباب الأول في تفسير الزكاة، ج: 1، ص: 170، دار الفكر بيروت)
حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح میں ہے:
" وأنفع للمسلمين بتعليم "وأنفع للمسلمين بتعليم" قال في المعراج التصدق على العالم الفقير أفضل اهـ أي من الجاهل الفقير قهستاني."
(کتاب الزکوٰۃ، باب المصرف، ص:722، ط:دار الكتب العلمية بيروت - لبنان)
الدرالمختار مع ردالمحتار میں ہے:
" وبهذا التعليل يقوى ما نسب للواقعات من أن طالب العلم يجوز له أخذ الزكاة ولو غنيا إذا فرغ نفسه لإفادة العلم واستفادته لعجزه عن الكسب والحاجة داعية إلى ما لا بد منه كذا ذكره المصنف
وفي الرد:(قوله: والحاجة داعية إلخ) الواو للحال.
والمعنى أن الإنسان يحتاج إلى أشياء لا غنى عنها فحينئذ إذا لم يجز له قبول للزكاة مع عدم اكتسابه أنفق ما عنده ومكث محتاجا فينقطع عن الإفادة والاستفادة فيضعف الدين لعدم من يتحمله وهذا الفرع مخالف لإطلاقهم الحرمة في الغنى ولم يعتمده أحد ط. قلت: وهو كذلك. والأوجه تقييد بالفقير."
(کتاب الزکاۃ، باب المصرف، ج:3، ص:335، ط:رشیديه)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144602101631
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن