کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کےبارےمیں کہ29 نومبر کو میری شادی ہوئی،شادی کے بعد میری بیوی اورمیرے گھر والوں کے درمیان کچھ نا چاقیاں ہوئیں ،تو میرے والد صاحب نے مجھے فوراً طلاق دینے پر مجبو ر کردیا،لیکن میں طلاق دینے پر بالکل راضی نہیں تھا،میں نے کوئی طلاق نہیں دی ،بہر حال اسی دن میرے والد صاحب ایک پیپر بنواکر لے آئے ،اور جبراً مجھ سے دستخط کرائے۔واضح رہےکہ مذکورہ پیپر کے مضامین اور اس میں کیا لکھاہواہےاس سے میں بالکل واقف نہیں تھااور مجھے بالکل پڑھنےنہیں دیا گیاتھا،اب میں اپنی بیوی کو دوبارہ لانا چاہتا ہوں قرآن وسنت کی روشنی میں اگر کوئی گنجائش نکلتی ہے تومیری رہنمائی کیجیے۔
صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ طلاق نامہ آپ نے نہیں پڑھا تھا، لیکن آپ کو معلوم تھا کہ یہ طلاق نامہ ہے، البتہ اس میں موجود طلاقوں کی تعداد پتہ نہیں تھی تو اس پر دستخط کرنے کی وجہ سے آپ کی بیوی پر ایک طلاقِ رجعی واقع ہوگئی ہے، اب اگر بیوی ابھی تک عدت میں ہے (یعنی تین ماہواریاں مکمل نہیں ہوئی یا حمل سے ہے)تو نکاح کےبغیر رجوع کیا جا سکتا ہے اور اگر رجوع کیے بغیر عدت مکمل ہوچکی ہےتو نکاح ختم ہوچکا ہے، اب اگر دوبارہ ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو دوبارہ نکاح کرکے ایک ساتھ رہ سکتے ہیں، اس کے بعد شوہر کو آئندہ کے لیے دو طلاقوں کا حق باقی رہے گا۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
"ولو استكتب من آخر كتابا بطلاقها وقرأه على الزوج فأخذه الزوج وختمه وعنونه وبعث به إليها فأتاها وقع إن أقر الزوج أنه كتابة أو قال للرجل: ابعث به إليها، أو قال له: اكتب نسخة وابعث بها إليها، وإن لم يقر أنه كتابه ولم تقم بينة لكنه وصف الأمر على وجهه لا تطلق قضاء ولا ديانة، وكذا كل كتاب لم يكتبه بخطه ولم يمله بنفسه لا يقع الطلاق ما لم يقر أنه كتابه."
(كتاب الطلاق، ج:3، ص:246، ط:سعيد)
وفیہ ایضاً:
"(ويقع طلاق كل زوج بالغ عاقل) ولو تقديرا بدائع، ليدخل السكران (ولو عبدا أو مكرها) فإن طلاقه صحيح
و في الرد : (قوله : فإن طلاقه صحيح) أي طلاق المكره."
(کتاب الطلاق ، رکن الطلاق،ج: 3 ،ص:235 ، ط: سعید)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"في المنتقى لو كتب كتابا في قرطاس وكان فيه إذا أتاك كتابي هذا فأنت طالق ثم نسخه في كتاب آخر أو أمر غيره أن يكتب نسخة ولم يملل هو فأتاها الكتابان طلقت تطليقتين في القضاء إذا أقر أنهما كتاباه أو قامت به بينة وأما فيما بينه وبين الله تعالى فيقع عليها تطليقة واحدة بأيهما أتاها ويبطل الآخر لأنهما نسخة واحدة وفيه أيضا رجل استكتب من رجل آخر إلى امرأته كتابا بطلاقها وقرأه على الزوج فأخذه وطواه وختم وكتب في عنوانه وبعث به إلى امرأته فأتاها الكتاب وأقر الزوج أنه كتابه فإن الطلاق يقع عليها وكذلك لو قال لذلك الرجل ابعث بهذا الكتاب إليها أو قال له اكتب نسخة وابعث بها إليها وإن لم تقم عليه البينة ولم يقر أنه كتابه لكنه وصف الأمر على وجهه فإنه لا يلزمه الطلاق في القضاء ولا فيما بينه وبين الله تعالى وكذلك كل كتاب لم يكتبه بخطه ولم يمله بنفسه لا يقع به الطلاق إذا لم يقر أنه كتابه كذا في المحيط والله أعلم بالصواب."
(کتاب الطلاق، الباب الثاني في إيقاع الطلاق، الفصل السادس في الطلاق بالكتابة، ج:1، ص:379، ط:رشیدیه)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144607102765
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن