بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

تمکین کریڈٹ کارڈ بنانے کا حکم


سوال

 بینک سے یہاں ایک کریڈٹ کارڈ کی طرح سے ایک کارڈ ملتا ہے،  جس سے ہم پندرہ سو ریال نکال سکتے ہیں،  اور انسٹالمنٹ میں دس فیصد ہر مہینہ واپس کرنا ہوتا ہے،  بینک اس میں کچھ بھی اضافی نہیں لیتا،  صرف سالانہ کارڈ کی فیس دو سو ریال ہے ۔  اگر یہ جائز ہے تو کیا اپنے بھائی کا کارڈ میں استعمال کر سکتا ہوں،   اگر فیس دو سو میں ادا کرو ں،  بھائی نے مجھے اجازت دی ہے کہ میرا کارڈ استعمال کروں لیکن فیس تم ادا کرو گے؟

تفصیل منسلکہ لنک میں موجود ہے۔

جواب

سوال میں دیے گئے لنک میں موجود تفصیل کے مطابق  " بنک البلاد" سے جاری ہونے والا " تمکین کریڈٹ کارڈ" عام کریڈٹ کارڈ ہی کی طرح ایک کارڈ ہے، جس میں کریڈٹ کارڈ لینے والا مذکورہ ادارہ بنک البلاد  کے ساتھ معاہدہ کرتا ہے کہ "اگر مقررہ مدت میں لی جانے والی رقم واپس نہ کر سکا تو ایک متعین شرح کے ساتھ جرمانہ کے نام پر اگر بینک سود لینا چاہتا ہے تو میں بلاکسی جھجک کے ادا کرنے کو تیار ہوں"تو ملحوظ رہے کہ شرعًا یہ سود کے لینے دینے کا معاہدہ ہے ، جب کہ   جس طرح سود کا لینا حرام ہے اسی طرح اس کا معاہدہ کرنا بھی شرعًا ناجائز اور حرام ہے۔  اس بنیاد پر بالفرض اگر کریڈٹ کارڈ لینے والا لی گئی  رقم مقررہ  مدت میں واپس بھی کردے تو  معاہدہ کے سودی ہونے کی وجہ سے اصولی طور پر کریڈٹ کارڈ کا معاملہ کرنا اور  اس کا استعمال نا جائز ہے،اور اگر مقررہ مدت کے بعد سود کے ساتھ رقم واپس کرتا ہے تو اس کے ناجائز ہونے میں کسی قسم کا شبہ نہیں ہے، اس لیے ادائیگی کی صورت کوئی بھی ہو اس سے قطع نظر نفس معاہدہ کے سودی ہونے کی وجہ سے کریڈٹ کارڈ بنوانا ہی ناجائز ہے، سائل کے بھائی کو چاہیے کہ مذکورہ کارڈ ہی ختم کردے، نہ سائل استعمال کرسکتا ہے اور نہ سائل کا بھائی استعمال کرسکتا ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي الأشباه كل قرض جر نفعًا حرام فكره للمرتهن سكنى المرهونة بإذن الراهن".

(قوله: كلّ قرض جر نفعًا حرام) أي إذا كان مشروطًا كما علم مما نقله عن البحر.

ثم رأيت في جواهر الفتاوى إذا كان مشروطًا صار قرضًا فيه منفعة وهو ربا وإلا فلا بأس به اهـ ما في المنح ملخصًا وتعقبه الحموي بأن ما كان ربًا لايظهر فيه فرق بين الديانة والقضاء على أنه لا حاجة إلى التوفيق بعد الفتوى على ما تقدم أي من أنه يباح."

(مطلب كلّ قرض جر نفعًا حرام، ج:5،ص:166،ط:ایچ ایم سعید)

الاشباہ والنظائر میں ہے:

"ماحرم فعله حرم  طلبه".

(القاعدة الرابعة عشر،ج:1،ص:348،ط:مکتبه علمیه)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144206201266

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں