بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

تنخواہ کے ساتھ زکات کی مد میں راشن دینے کا حکم


سوال

میں نے ایک یتیم بچی کو نوکری پر رکھا، اور اسے تنخواہ کے ساتھ راشن دینے کا کہا ،کیا یہ راشن ہر مہینے زکوٰۃ سے دیا جاسکتا ہے؟ 

اگر اسے بتا دیا جائے کہ یہ زکوٰة ہے،  تو  کیا میری زکوٰة ادا ہو جائے گی؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں   سائلہ نے اگر  مذکورہ  ملازمہ کو رکھتے ہوئے  تنخواہ  اور راشن دینے  کا کہا تھا، اس صورت میں راشن تنخواہ کا حصہ شمار ہوگا، پس جس طرح تنخواہ  زکوٰة  کی مد سے دینا جائز نہیں، اسی طرح راشن بھی زکوٰة سے دینا جائز  نہیں ہوگا، کیوں کہ زکوٰة  بلا عوض دینا شرعا ضروری ہے جبکہ مذکورہ صورت میں کام کے عوض میں دینا لازم آئے گا، جس سے زکوٰة ادا نہ ہوگی، البتہ  مذکورہ  ملازمہ  کا تقرر کرتے ہوئے تنخواہ کے ساتھ ہر ماہ راشن دینے کا معاہدہ  اگر نہ کیا ہو، تو اس صورت میں اگر مذکورہ  خاتون مستحق زکوٰة  ہو، تو زکوٰة   کی مد میں راشن دینا جائز ہوگا۔

ملحوظ  رہے کہ ملازمہ کو زکوٰة  کا بتانا شرعا ضروری نہیں،  البتہ دیتے وقت زکوٰة  کی نیت کرنا ضروری ہوگا۔

 قرآن مجید میں ہے:

"إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَاِبْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِنْ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ"(التوبۃ:60)

ترجمہ:"صدقات تو صرف حق ہے غریبوں کا اور محتاجوں کا اور جو کارکن ان صدقات پر معین ہے اور جن کی دلجوئی کرنا ہے اور غلاموں کی گردن چھڑانے میں اور قرض داروں کے قرضے میں اور جہاد میں اور مسافروں میں یہ حکم اللہ کی طرف سے مقرر ہے اور اللہ تعالی بڑے علم والے بڑی حکمت والے ہیں ۔"(از بیان القرآن)

فتاوی شامی میں ہے:

"ولو دفعها المعلم لخليفته إن كان بحيث يعمل له لو لم يعطه وإلا لا،

(قوله: وإلا لا) أي؛ لأن المدفوع يكون بمنزلة العوض"

(کتاب الزکاۃ،باب مصرف الزکاۃ والعشر، ج:2، ص:356،ط: سعید)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"أما تفسيرها فهي تمليك المال من فقير مسلم غير هاشمي، ولا مولاه بشرط قطع المنفعة عن المملك من كل وجه لله - تعالى -"

(کتاب الزکاۃ،الباب الأول في تفسير الزكاة وصفتها وشرائطها،ج:1،ص:170،ط:دارالفکر بیروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144604102151

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں