بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

تنخواه پر زكاة كاحكم


سوال

  میری زکوٰۃ  کے نصاب کی تاریخ بیس شوال ہے ، اور اس تاریخ تک  کی میری تنخواہ جو کچھ دن بعد ملے گی  کیا وہ بھی نصاب میں شامل ہوگی؟  اور کمپنی کے پاس میرے تقریباً پچاس ہزار ڈیپازٹ ہیں جو میری تنخواہ سے ہی کاٹے گئے ہیں،  جو جاب چھوڑنے کی صورت میں واپس مل جائیں گے ، اس کو بھی نصاب میں شامل کر نا ہے ؟

جواب

1:صورتِ  مسئولہ ميں زكوة  کے نصاب كي تاريخ مكمل ہونے كے بعد جو تنخواه كي رقم اب تك نہیں  ملي  وه نصاب ِ  زكوة  مىں شامل نہیں ہوگی؛  اس لیے کہ تنخواہ کی رقم جب تک  وصول نہ ہوجائے وہ ملازم کی ملکیت میں نہیں آتی،  بلکہ ادارے کے   ذمے  واجب الادا ہوتی ہے اور یہ دینِ ضعیف ہے، اس کے وصول ہونے کے بعد اس رقم کی گزشتہ عرصے کی زکات ادا کرنا لازم نہیں ہوگی۔

باقی رہا تنخواه  ملنے کے بعد  زكاة كا حكم ، تو  اگر آپ کے پاس تنخواہ میں سے اتنی رقم اخراجات كے علاوه  باقی رہتی ہو جو بقدرِ نصاب (ساڑھے باون تولہ  چاندی کی قیمت کے برابر)ہو اور اس پر سال گزر جائے،تو اس پر زکاۃ واجب ہوگی۔

 اور اگر تنخواہ سے اخراجات كے علاوه بچنے والی رقم  تنہا تو ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر نہیں ہے، تاہم مزید رقم آپ کی ملکیت میں موجود ہے، یا سونا یا چاندی موجود ہے، یا تجارت کا مال موجود ہے، اور ان سب چیزوں کی مجموعی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر ہے، تو آپ پر سالانہ زکاۃ واجب ہوگی۔اور اگر اتنی رقم نہ ہو تو زکاۃ واجب نہیں ۔

2:صورتِ مسئولہ میں آپ کی ڈيپازٹ فنڈ کی مد میں جو تن خواہ  کی رقم جمع ہے اس  پر زکوٰۃ اس وقت واجب ہوگی ہے جب وہ وصول ہوجائےاور وصول ہونے کے بعد یہ تفصیل ہے کہ  اگر آپ پہلے سے صاحبِ نصاب ہیں تو اپنے نصاب پر سال مکمل ہونے کے وقت ان رقوم سے بھی زکات نکالنا لازم ہوگا، چاہے رقم وصول ہونے کے بعد سال مکمل نہ  بھی ہوا ہو، اور اگر پہلے سے صاحبِ نصاب نہیں ہیں، بلکہ مذکورہ فنڈ کی رقم ملنے کے بعد نصاب  کے مالک ہوں گے تو   یہ رقم وصول کرنے کے ایک سال مکمل گزرنے کے بعد  ڈھائی فی صد زکات ادا کرنا لازم ہوگا، اور  جب تک وہ  رقم ادارہ کے کھاتے میں جمع رہے  گی اور آپ  کو نہیں ملے گی  تب تک اس کی زکات ادا کرنا واجب نہیں  ہوگا، اور ملنے کے بعد گزشتہ سالوں کی زکات بھی ادا کرنا لازم نہیں ہوگا۔

         فتاوی عالمگیری میں ہے:

"وأما سائر الديون المقر بها فهي على ثلاث مراتب عند أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - ضعيف، وهو كل دين ملكه بغير فعله لا بدلاً عن شيء نحو الميراث أو بفعله لا بدلاً عن شيء كالوصية أو بفعله بدلاً عما ليس بمال كالمهر وبدل الخلع والصلح عن دم العمد والدية وبدل الكتابة لا زكاة فيه عنده حتى يقبض نصاباً ويحول عليه الحول."

(کتاب الزکاة، الباب الأول في تفسير الزكاة وصفتها وشرائطها،ج:1،ص:175، ط: رشیدیہ) 

         فتاوی عالمگیری میں ہے:

"تجب في كل مائتي درهم خمسة دراهم، وفي كل عشرين مثقال ذهب نصف مثقال."

(کتاب الزکاة، الباب الثالث في زکاة الذهب والفضة ... ج:1،ص:178،ط:ماجدیة) 

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144510100879

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں