1- میرے والد صاحب کی جائیداد میں ایک دوکان ہے ، والد صاحب کی زندگی سے لے کر ان کی زندگی کے بعد تک اس کی دیکھ بھال میں کرتا رہا اور ابھی بھی میرے پاس ہی ہے، اس میں میں نے کافی خرچہ کیا ہے ،جس میں بجلی کا بل اس کی مینٹینس(دیکھ بھال کے اخراجات) وغیرہ شامل ہیں، اب مجھے یہ معلوم کرنا ہے کہ شرعی لحاظ سے جو خرچہ کرتا رہا تو اس کا کیا حکم ہے ؟
2- نیز کیا میں دوکان اپنے نام کر سکتا ہوں ؟ والد صاحب نے اپنی زندگی میں اس دکان کی پاور آف اٹارنی میرے نام کی تھی۔
3- والد صاحب کے والدین کا انتقال ان سے قبل ہی ہوچکا تھا ۔والد کے انتقال کے وقت ورثاء میں بیوہ ، تین بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں ،اس کے بعد سب سے پہلے مرحوم کے بڑے بیٹے (میرے بڑے بھائی) کا انتقال ہو گیا اور ورثاء میں ان کی ایک بیوہ ، چار بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے،اس کے بعدمرحوم کی بڑی بیٹی ( میری بڑی بہن ) کا بھی انتقال ہوا، ان کےورثاء میں چار بیٹے اور ایک بیٹی ہے، اور مرحومہ کے انتقال سے پہلے ہی ان کے شوہر کا بھی انتقال ہو گیا تھا ، اس کے بعد مرحوم کا چھوٹا بیٹا (میرا چھوٹا بھائی) تھا اس کا بھی انتقال ہو گیا ، اس کی بیوہ ہے لیکن اس کی کوئی اولاد نہیں ہے، ، ابھی حال میں ہی چھ ماہ قبل مرحوم کی بیوہ (میری والدہ) کا بھی انتقال ہو گیا ہے ،ان کے والدین بھی نہیں ہیں، اب والد صاحب کی اولاد میں سے ایک میں اور ایک میری چھوٹی بہن حیات ہیں ۔
مجھے معلوم یہ کرنا ہے کہ اس دکان کا شرعی لحاظ سے سب کو حصہ دینا ہے تو کس حساب سے حصہ دوں گا ؟
وضاحت : والد کے انتقال کے بعد اس دکان کی کوئی ویلیو نہیں تھی ، اور اس کی چھت بھی گرگئی تھی ، سائل نے اس کی مرمت اور دیکھ بھال پر جو خرچہ کیا بقول ان کے دیگر ورثاء کی رضامندی بھی اس میں شامل حال تھی ۔
1-صورتِ مسئولہ میں سائل کے والد کے انتقال کے بعد ان کے کل ترکہ میں ان کے تمام شرعی ورثاء کا حق متعلق ہوگیا تھا، اور وہ ترکہ تمام ورثاء کے درمیان مشترک ہوگیا تھا، اور تمام ورثاء اپنے اپنے شرعی حصوں کے مطابق اس میں شریک ہوگئے تھے، بعد ازاں ترکہ کی دکان کی ضروری دیکھ بھال میں سائل کی جانب سے جو اخراجات ہوئے ہیں ، اس میں تمام ورثاء کی رضامندی شامل تھی ،لہذا اس کا خرچہ تمام ورثاء کے حصوں کے بقدر ان سے وصول کرنے کا حق ہوگا۔
درر الحکام شرح مجلۃ الاحکام میں ہے :
"إذا عمر أحد الشريكين الملك المشترك ففي ذلك احتمالات أربعة:...
الاحتمال الأول - أن يكون المعمر صرف بإذن وأمر الشريك الآخر من ماله قدرا معروفا وعمر الملك المشترك للشركة أو أنشأه مجددا فيكون قسم من التعميرات الواقعة أو البناء ملكا للشريك الآمر ولو لم يشترط الشريك الآمر الرجوع على نفسه بالمصرف بقوله: اصرف وأنا أدفع لك حصتي من المصرف. وللشريك المأمور الذي عمر الرجوع على شريكه بحصته أي بقدر ما أصاب حصته من المصرف بقدر المعروف يعني إذا كان الملك مناصفة فيأخذ منه نصف المصرف وإذا كان مشتركا بوجه آخر فيأخذ المصرف على تلك النسبة."
( شرح مجلة الاحكام ، ج:3 ، ص:314 ، ط: دارالجيل )
2- واضح رہے سائل کو والد کی طرف سےدوران حیات دوکان کی پاور آف اٹارنی ملنے سے وہ ان کی ملکیت میں نہیں آئی تھی ، بلکہ والد صاحب کے انتقال سے پہلے دوکان ان کی ذاتی ملکیت اور انتقال کے بعد تمام ورثاء کی مشترکہ ملکیت کہلائے گی ، لہذا صرف پاور آف اٹارنی کی بنیاد پر دوکان اپنے نام کرانا درست نہیں ہے ۔
3- صورت مسئولہ میں مرحوم کے ترکہ کی تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے مرحوم کی کل جائیداد منقولہ و غیر منقولہ میں سے مرحوم کے حقوق متقدمہ یعنی تجہیز و تکفین کے اخراجات نکالنے اور اگر مرحوم کے ذمہ کوئی قرضہ ہو تو اس کی ادائیگی کے بعد، اور اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو ایک تہائی مال میں سے وصیت کو نافذ کرنے کے بعد باقی کل ترکہ کو 13824 حصوں میں تقسیم کرکے 6192 حصے مرحوم کے بیٹے ( سائل) کو اور 3096 حصے مرحوم کی چھوٹی بیٹی کو ملیں گے ۔ 378 حصے مرحوم کے بڑے بیٹے کی بیوہ کو ،714 حصے ان کے بیٹے کو اور 357 حصے ان کی ہر ایک بیٹی کو ملیں گے ۔280 حصے مرحوم کی بڑی بیٹی کے ہر ایک بیٹے کو اور 140 حصے بیٹی کو ملیں گے ۔756 حصے مرحوم کے چھوٹے بیٹے کی بیوہ کو ملیں گے ۔
صورت تقسیم یہ ہے :
میت (والدمرحوم):8 / 64/ 4608/ 13824
بیوہ | بیٹا | بیٹا | بیٹا | بیٹی | بیٹی |
1 | 7 | ||||
8 | 14 | 14 | 14 | 7 | 7 |
576 | فوت شد | 1008 | 1008 | 504 | 504 |
1728 | 3024 | 3024 | 1512 | فوت شد | |
. | فوت شد | . | . | ||
فوت شد | . | . |
میت (بڑا بیٹا): 24 / 144 /72 ....مافی الید :14 / 7
بیوہ | والدہ | بیٹا | بیٹی | بیٹی | بیٹی | بیٹی |
3 | 2 | 7 | ||||
18 | 24 | 34 | 17 | 17 | 17 | 17 |
126 | 168 | 238 | 119 | 119 | 119 | 119 |
378 | 504 | 714 | 357 | 357 | 357 | 357 |
. | فوت شد | . | . | . | . | . |
میت ( بڑی بیٹی):6 / 54 / 3 .... مافی الید :205/ 28
والدہ | بیٹا | بیٹا | بیٹا | بیٹا | بیٹی |
1 | 5 | ||||
9 | 10 | 10 | 10 | 10 | 5 |
252 | 280 | 280 | 280 | 280140 | |
فوت شد | . | . | . | . | . |
میت (چھوٹا بیٹا):12 / 36 / 1 ....مافی الید :3024/ 84
بیوہ | والدہ | بھائی | بہن |
3 | 2 | 7 | |
9 | 6 | 14 | 7 |
756 | 504 | 1176 | 588 |
. | فوت شد | . | . |
میت (والدہ):3 /1 .... مافی الید :2988 / 996
بیٹا | بیٹی |
2 | 1 |
1992 | 996 |
ترکہ کی رقم اگر 100 روپے ہو تو اس کی تقسیم اس طرح ہوگی کہ 44.791 روپے مرحوم کے بیٹے ( سائل ) کو ، 22.395 روپے مرحوم کی چھوٹی بیٹی کو ، 2.734 روپے مرحوم کے بڑے بیٹے کی بیوہ کو ، 5.164 روپے ان کے بیٹے کو ،2.582 روپے ان کی ہر ایک بیٹی کو ، 2.025 روپے مرحوم کی بڑی بیٹی کے ہر ایک بیٹے کو ،1.012 روپے اس کی بیٹی کو اور 5.468 روپے مرحوم کے چھوٹے بیٹے کی بیوہ کو ملیں گے ۔
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144309100473
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن