بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 ذو الحجة 1445ھ 04 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

خریدی ہوئی چیز کا دکاندار کے پاس ہلاک ہوجانا


سوال

اگر گاہک کے کپڑے جل گئے پوری دکان سمیت تو کیا گاہک اپنے پیسوں کا مطالبہ کرسکتا ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں  اگر دکاندار نے کپڑے خریدار کے حوالے کر دیے تھے اور خریدار نے اپنے کپڑوں  پر قبضہ کرنے کے بعد وہ کپڑے دکاندار کے پاس چھوڑ دیے تھے، تو وہ کپڑے خریدار کی امانت تھے، لہذا اگر دکاندار کی طرف سے غفلت نہیں تھی، تو خریدار نقصان کا مطالبہ نہیں کر سکتا، اور اگر ابھی کپڑے خریدار کے حوالے نہیں کیے گئے تھے، اس سے پہلے وہ آگ لگنے سے جل گئے تو اس صورت میں خریدار کو اس کی مکمل رقم لوٹانا دکاندار پر لازم ہوگا۔

تبین الحقائق میں ہے:

"قال رحمه الله (لا بيع المنقول) أي لا يجوز بيع المنقول قبل القبض لما روينا ولقوله عليه الصلاة والسلام «إذا ابتعت طعاما فلا تبعه حتى تستوفيه» رواه مسلم وأحمد ولأن ‌فيه ‌غرر ‌انفساخ ‌العقد على اعتبار الهلاك قبل القبض؛ لأنه إذا هلك المبيع قبل القبض ينفسخ العقد فيتبين أنه باع ما لا يملك والغرر حرام لما روينا."

(کتاب البیوع، باب التولية، فصل بيع العقار قبل قبضه، ج:4 ص:80  ط: رشیدیه)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144503102425

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں