بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

زبردستی کسی سے طلاق نامہ پر دستخط کروانا


سوال

میری دوسری شادی دو سال قبل ہوئی، شادی کے بعد میری بیوی نے مجھے کہا کہ مجھےطلاق دو، میں اپنے پہلے شوہر کے پاس جانا چاہتی ہوں، لیکن میں نے انکار کردیا، وہ بار بار مطالبہ کرتی رہی، میں انکار کرتا رہا، اس کے بعد اس نے کورٹ میں خلع کا کیس دائر کر دیا، اس میں بھی میں نے انکار کردیا، پندرہ دن تک کیس چلتا رہا، پھر میرے گھر پر حملہ کیا گیا ، مجھے جان سے مارنے کی دھمکی دی، میرے کاروبار کو تالا لگایا، جس کی وجہ سے میں گھر چھوڑ کر چلا گیا، پھر مجھے فون آیا کہ آپ کے گھر پر حملہ ہورہا ہے؛ لہذا میں  اپنےگھر واپس آیا، بھرے بازار میں مجھےتنظیم کے کچھ لڑکوں کے ذریعہ دھمکایا گیا کہ طلاق نامہ پر دستخط کرو،تنظیم کے لڑکوں نے مجھے یہ دھمکی دی کہ اگر دستخط نہیں کرو گے تو ہم تمہیں جان سے مار دیں گے اور تمہارے کاروبار کو بند کروادیں گے، پھر انہوں نے مجھے اپنے گھر بلوایا اور طلاق نامہ پر  دستخط کروایا(دستخط کرتے وقت ہتھیار وغیرہ یا کسی قسم کی کوئی زبر دستی نہیں ہوئی تھی،  البتہ اس سے پہلے دھمکایا جاتا رہا ہے، اور پھر مجبوری کی وجہ سے طلاق نامہ پر دستخط کیا ہے)۔ اس کے بعد میری بیوی نے بغیر عدت گزارے کچھ ہی دیر بعد اپنے پہلے شوہر سے نکاح کر لیا، اب مجھے یہ پوچھنا کہ یہ طلاق واقع ہوئی ہے یا نہیں اور اس کے بعد میری بیوی کا نکاح کرنا جائز ہے یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ اگر اکراہ(مجبور کرنا)  کرنا اس طور پر ہو جس میں صرف اصرار ،ترکِ تعلق کی دھمکی ،گالم گلوچ وغیرہ یعنی کوئی ایسی صورت ہے جس میں جان سے مارنا،یا اعضاء کے تلف کی کوئی صورت نہ ہو،(جس کو اکراہِ ناقص بھی کہتے ہیں ) تو ایسا شخص شرعاً مجبور شمار نہیں ہوتا ایسا شخص قولًایا تحریراً  طلاق دے دے، تو طلاق واقع ہوجاتی ہے۔

اور اگر مجبور سے مراد ایسا شخص ہے جسے طلاق نہ دینے کی صورت میں جان سے مارنے کی ،یا کسی عضو کے ضائع کرنے کی دھمکی دی گئی ہو ،اور دھمکی دینے والااپنی دھمکی  پر عمل کرنے پر قادر بھی ہو،(جس کو اکراہِ تام بھی کہتے ہیں )تو ایسی صورتِ حال میں اگر یہ مجبور( مکرہ) شخص تحریری طلاق دے دے تو اس کی تحریر کا اعتبار نہیں ہوگا اور طلاق واقع نہیں ہوگی، لیکن اگر اس صورتِ حال میں اس نے زبانی طلاق دے دی تو یہ طلاق واقع ہوجائے گی۔

صورتِ مسئولہ میں اگر سائل  پر اکراہِ تام کیا گیا تھا (یعنی   تنظیم کے لڑکے   اس بات پر قادر بھی ہیں، کہ اگر ان کےکہنے پر سائل نے اپنی بیوی کو طلاق نہ دی ،تو وہ واقعی اس کو جان سے مار دیں گے )تو اس  صورت میں صرف طلاق کے اسٹام پیپر پے جان  سے مارنے کی  دھمکی کے خوف سے سائن (دستخط )کیے تو ایسی طلاق واقعی نہیں ہو ئی ،دونوں میاں بیوی کا نکاح تا حال برقرار ہے، لہذا سائل کی بیوی نے جو دوسری جگہ نکاح کیا ہے وہ نکاح صحیح نہیں ہوا، اس سے فوری طور پر الگ ہوکر سائل کے پاس آجانا ضروری ہے، ورنہ زندگی گناہ اور زنا میں گزرے گی۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"( وأما ) ( أنواعه ) فالإكراه في أصله على نوعين إما إن كان ملجئا أو غير ملجئ فالإكراه الملجئ هو الإكراه بوعيد تلف النفس أو بوعيد تلف عضو من الأعضاء والإكراه الذي هو غير ملجئ هو الإكراه بالحبس والتقييد ."

(کتاب الإكراه، الباب الأول في تفسير الإكراه، ج:5، ص:35، ط:دارالفكر)

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي البحر: أن المراد الإكراه على التلفظ بالطلاق فلو أكره على أن يكتب طلاق امرأته فكتب لاتطلق لأن الكتابة أقيمت مقام العبارة باعتبار الحاجة ولا حاجة هنا، كذا في الخانية."

(كتاب الطلاق، مطلب في المسائل التي تصح مع الإكراه، ج:3، ص:236، ط:سعید)

وفیه أیضًا:

"أما نكاح منكوحة الغير ومعتدته فالدخول فيه لا يوجب العدة إن علم أنها للغير لأنه لم يقل أحد بجوازه فلم ينعقد أصلا."

(کتاب النکاح، باب العدّۃ، مطلب عدة المنكوحة فاسدا و الموطوءة بشبهة، ج:3، ص:516، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144512100334

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں