زید نے ایک کمرشل پلازہ میں ایک دکان( کاروبار کی نیت سے) اور ایک ہاؤسنگ سوسائٹی میں ایک پلاٹ قسطوں پر لیا ہے، دونوں کی کچھ اقساط ادا کر دی ہیں اور کافی ساری باقی ہیں، اب پوچھنا یہ ہے کہ زید جب زکات کا حساب کتاب کرے گا تو کیا اپنے ٹوٹل بیلنس میں سے دکان اور پلاٹ کی بقایا واجب ا لادا اقساط کو نکالے گا؟ اور پھر جو بیلنس بچے گا اس میں سے زکات ادا کرے گا ؟
پلاٹ رہائش کے لیے خریدا ہے اور دکان کے اندر کاروبار کرنے کی نیت ہے ( فروخت کرنے کی نیت نہیں ہے ) ۔
صورت ِ مسئولہ میں زید پر مذ کورہ دکان اور مکان کی مالیت پر زکات واجب نہیں ہے ،البتہ زید اگر پہلے سے صاحب ِ نصاب ہے جب دیگر اموال ِ تجارت میں اپنی زکات کا حساب کرے گا تو سال پورا ہونے پر رواں سال کی واجب الادا ء اقساط کو منہا کرکے بقیہ رقم اگر نصاب ِ زکات تک پہنچتی ہو تو زکات ادا کرے گا ورنہ نہیں ۔
فتاوی ہندیہ میں ہے :
"(ومنها فراغ المال) عن حاجته الأصلية فليس في دور السكنى وثياب البدن وأثاث المنازل ودواب الركوب وعبيد الخدمة وسلاح الاستعمال زكاة."
(کتاب الزکات،الباب الاول فی تفسیر الزکات،ج:1،ص:172،دارالفکر)
بدائع الصنائع میں ہے :
"ومنها أن لا يكون عليه دين مطالب به من جهة العباد عندنا فإن كان فإنه يمنع وجوب الزكاة بقدره حالا كان أو مؤجلا."
(کتاب الزکات،فصل شرائط فرضیۃ الزکات،ج:2،ص:6،دارالکتب العلمیۃ)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144601101405
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن