بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

دیوالی کے موقع پر دی گئی مٹھائی وغیرہ کا حکم


سوال

ہمیں کیسے پتہ چلے گا کہ یہ مٹھائی دیوی دیوتاؤں کے نام چڑھ کر آئی ہے یا نہیں؟

تنقيح: دیوالی کے موقع پر دی جانے والی مٹھائی کے بارے میں ہمیں کیسے پتہ چلےگا یہ مٹھائی دیوی دیوتاؤں کے نام پر چڑھائی گئی ہے يا نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اس بات کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتاہے کہ مٹھائی کب تقسیم کی جارہی ہے ؟اگر  مٹھائیاں دیوی دیوتاوٴں پر چڑھاوے کے بعد دی جاتی ہوں ،تو اس کا کھانا قطعاً جائز نہیں،اور اور اگر بغیر چڑھاوے کے ہوں تو بھی احتراز کرنا بہتر ہے۔

تاہم دیوالی کے موقع پر ہندوؤں کی جانب سے دی گئی مٹھائی وغیرہ کے متعلق اگر یہ یقین ہو کہ انہوں نے اپنے باطل معبودوں کے نام پر نہیں چڑھائی ہے اور نہ ہی اس میں کسی حرام و ناپاک چیز کی آمیزش ہے، نیز دینے والوں کی آمدنی بھی حلال ہو تو اس کا استعمال جائز ہے، البتہ پھر بھی احتیاط بہترہے۔

مزید یہ کہ اگر غیر مسلم اپنے تہوارکے موقع پر کوئی چیز پیش کرے تو اسے تہوار کی مبارک باد ہرگز نہ دی جائے۔   اور غیرمسلموں سے دلی تعلق و دوستانہ نہ رکھا جائے۔ 

فتاویٰ محمودیہ میں ہے:

’’سوال: اگر کسی مسلمان کے رشتہ دار ہندو کے گاؤں میں رہتے ہوں اور ہندو کے تہوار ہولی دیوالی وغیرہ پکوان، پوری، کچوری وغیرہ پکاتے ہیں، ان کا کھانا ہم لوگوں کو جائز ہے یا نہیں؟

جواب:جوکھانا کچوری وغیرہ ہندو کسی اپنے ملنے والے مسلمان کو دیں اس کا نہ لینا بہتر ہے، لیکن اگر کسی مصلحت سے لے لیا تو شرعاً اس کھانے کو حرام نہ کہا جائے گا۔

(ج:۱۸،ص:۳۴، ط:فاروقیہ)

 امداد الفتاوی میں ہے:

’’ سوال: موسمِ گرما میں اکثر اہل ہنود جگہ جگہ پانی پلایا کرتے ہیں، اس کے متعلق ایسا سنا ہے کہ وہ پانی دیوتاؤں کے نام پر پلاتے ہیں، تو اس پانی کا مسلمان کو پینا جائز ہے نہیں؟ 

الجواب: اگر محقق ہوجاوے کہ دیوتاؤں کے نام کا ہے تو   "ما اهل لغیر اللّٰه"  کے حکم میں ہے، لہذا ناجائز ہے۔‘‘

( کتاب الحظر والإباحۃ، کھانے پینے کی حلال وحرام، مباح و مکروہ چیزوں کا بیان،  (ج:4/ ص:97) ط:ادارۃ المعارف کراچی) 

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144604102807

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں