کورٹ کے ذریعہ خلع ہونے پر اگر سابقہ شوہر کوئی دستخط نہ کرے تو کیا دوسرا نکاح جائز ہے ؟
سابقہ شوہر کا کہنا ہے کہ میں نے طلاق نہیں دی ،اس لیے طلاق نہیں ہوئی ، اور کچھ عزیزوں کا بھی یہی خیال ہے کہ میں دوسرانکاح نہیں کر سکتی ، کورٹ کا یہ فیصلہ مؤرخہ 19فروری 2022 میں آیا تھا، جس کی بنیاد پر میرے نادرا کے تمام دستاویزات بن چکے ہیں، جس میں میری ازدواجی حیثیت خلع یافتہ ہے ، تقریباً 4سال کا میرا بیٹا ہے ،جس کی مکمل ذمہ داری مجھ پر ہے،اسی وجہ سے اب میں دوسری شادی اگر کرنا چاہوں تو کیا میں دوسرا نکاح کر سکتی ہوں ؟ اور سابقہ شوہر دستخط کے لیے راضی نہیں ۔
تفصیل : خلع کی بنیادی وجہ شوہر کا ذہنی مریض ہونا تھا ، نومولود بچے کو گرا دینا، جھوٹ پر رشتے کی بنیاد رکھنا، جھو ٹی تعلیم ،جھوٹی کمائی بتانا، بیوی بچے کا نان نفقہ نہ اٹھانا، شوہر اور سسرال والوں کا مجھے زور دینا کہ نوکری کر کے گھر چلاؤ، ہم نے شادی نوکری والی لڑکی سے اسی لیے کی تھی کہ وہ ہمارا گھر چلائے، شدید لالچ پرشادی قائم ہوئی تھی ،پھر جب میں سات مہینے کے حمل سے تھی، تو سسرال والوں نے بہانے سے ہمیں دوسرا کرائےکا گھر لینے پر مجبور کر دیا اور بچے کی پیدائش کے بعد جھگڑا کر کے ڈیڑھ مہینے کے بچے کو گرا کر خود کو باتھ روم میں بند کر کے اپنے باپ بھائی کو کال کر کے بلا لیا کہ میری بیوی نے مجھے باتھ روم میں بند کر دیا ہے، جب کہ اس باتھ روم میں باہر سے کوئی کنڈی ہی نہیں تھی، اس جھگڑے سے کچھ دیر کے لیے میں فرار چاہتی تھی ،جس بناءپر میں اپنے والد کہ گھر آ گئی کے پھر بعد میں بات بڑوں تک پہنچ گئی ، میری کوئی کال ریسیو نہیں کی تو رات کو بچے کا ضروری سامان لینے کی غرض سے میں گھر گئی تو گھر کا تالا بدلا ہوا تھا اور وہ اپنے باپ کے گھر جا چکا تھا اور چند دن میں گھر کا سامان بھی لے جا چکے تھے اور مجھ پر الزام لگا دیا کہ میں 5 لاکھ کا سونا اور نقدی لے كر بھاگی ہوں، جب کہ شادی میں جو سونادیا تھا وہ نقلی تھا، اس کے بعد کئی بار میں نے کوشش کی کہ مجھے گھر لے چلو تو وہ کہتا مجھے میرے گھر والوں کی طرف سے اجازت لے جانے کی نہیں ہے، جب کہ میں نے کہا تھا کہ بس ہمیں لے چلو میں راضی ہوں، گھر کا خرچہ بھی اٹھأوں گی اور بہتر زندگی دینے کی ہر ممکن کوشش کروں گی، بس آپ ہمیں گھر لے چلو ،پر وہ راضی نہ ہوا، پھر میں نے کورٹ کے ذریعے خلع کا کیس دائر کیا ،کافی تاریخیں چلیں، ہر تاریخ پر شوہر اور اس کا وکیل حاضر ہوا تھا اور جج نے بھی کئی بار موقع دیا، اس مسئلے کو حل کرنے کی ، ليكن وہ دماغی طور پر کمزور ہونےکی وجہ سے کچھ بھی سمجھنے سے قاصر تھا ،(دماغی طور پر کمزور ہونےکا علم مجھے شادی کے بعد ہوا) جج کے آرڈر پر وکیل نے زبانی بھی "ٹھیک ہے" کہا تھا اور آرڈر ریسیو کرتے ہوئے دستخط کیے تھے، جس بناءپر جو آ رڈر کی کاپی میں نے لگائی ہےوہ حاصل ہوئی ، جج کا آرڈر شوہر کی موجودگی میں پاس ہوا اور اس نے اس وقت کوئی اعتراض نہیں کیا، بس ہاں میں سر ہلا دیا اور بس جج کو اتنا کہا کہ آ پ اسے بولیں میرا گھر چلائے ،نیز جج کو سمجھ آ گیا تھا کہ اس کا ذہنی توازن ٹھیک نہیں ، اور اس نے خلع کا آرڈر پاس کر دیا،آرڈر پاس ہونے کے وقت شوہر اور وکیل دونوں موجود تھے، جج نے کہا آپ کی خلع ہو گئی ،اس بات پر سر ہلایا تھا اور کوئی اعتراض نہیں کیا تھا، اور خلع کی کاپی اور کورٹ کے آرڈر کی کاپی دونوں کے پاس موجود ہے،جسے دونوں اطراف کے وکلاء نے دستخط کر کے حاصل کیا اور دونوں فریقوں کے سپرد کیا، اب میرے لیے کیا صورت ہے اور مجھے اس کا دستاویزی فتویٰ بھی درکار ہے ، آ پ کے جواب کی بےحد مشکور رہوں گی ۔
واضح رہےکہ خلع بھی مالی معاملات کی طرح ایک مالی معاملہ ہے، جس طرح دیگر مالی معاملات کے شرعی طورپر معتبر ہونے کے لیے جانبین ( عاقدین) کی رضامندی ضروری ہوتی ہے، اسی طرح خلع کےشرعی طورپر معتبر ہونے کے لیے بھی زوجین ( میاں بیوی) کی رضامندی ضروری ہوتی ہے۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں جب شوہر کے وکیل نے جج کے آرڈر پر زبانی بھی "ٹھیک ہے "کہاتھااوراور آرڈر ریسیو کرتے ہوئے بھی دستخط کیے اور یہ آرڈر شوہر کی موجودگی میں پاس ہو ااور اس وقت شوہر نے کوئی اعتراض بھی نہیں کیا ، بلکہ جج کے اس کہنے کہ "خلع ہوگئی "، پرسر بھی ہلایا اور کوئی اعتراض نہیں کیا ،تو اس اس سے خلع واقع ہوگئی ہے ،اور یہ خلع ایک طلاق بائن کے حکم میں ہے ، سائلہ پر ایک طلاق بائن ہونے کی وجہ سے نکاح ٹوٹ گیا ہے ،سائلہ اپنی عدت (تین ماہواریا اگر حمل نہ ہو،اگر حاملہ ہوتو بچے کی پیدائش تک) گزار کر دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے ۔
فقہ السنۃ میں ہے:
"والخلع يكون بتراضي الزوج والزوجة."
(کتاب الطلاق،ج:2،ص:299، ط:دارالکتاب العربی)
فتاوی شامی میں ہے :
"فقالت: خلعت نفسي بكذا، ففي ظاهر الرواية: لايتم الخلع ما لم يقبل بعده."
(کتاب الطلاق، باب الخلع، ج:3، ص:440، ط: سعید)
بدائع الصنائع میں ہے :
"وأما ركنه فهو الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول."
(کتاب الطلاق ، فصل في شرائط ركن الطلاق وبعضها يرجع إلى المرأة، ج:3،ص:145، ط : دارالکتب العلمیة)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144607101737
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن