ایک صاحب کی 3 اولادیں ہیں، ایک لڑکا 2 لڑکی، چاکر خان انتقال کرگئے ہیں، بہنوں نے بھائیوں سے میراث میں سے حصہ مانگا، مگر بھائیوں نے حصہ نہیں دیا، پھر بہنوں کا انتقال ہوگیا، پھر بھانجوں(بہن کے بیٹوں) نے اپنے شرعی حصے کا مطالبہ کیا، انہیں بھی ان کا حصہ نہیں دیا گیا، اب بھانجوں کی اولاد میراث میں سے حصہ مانگ رہی ہے، ایک عالم کا کہنا یہ ہے کہ مذکورہ میراث زاد المعاد بن گئی ہے، اب بھانجوں کی اولاد کو میراث میں سے حصہ نہیں مل سکتا، جب کہ میراث کی زمین ابھی اصل حالت میں موجود ہے۔
واضح رہے کہ میراث شریعت کا ایک جبری حق ہے جو وقت گزرنے سے، یا اپنا حصہ وصول کیے بغیر ساقط کرنے سے ساقط نہیں ہوتا، لہذا مذکورہ عالم کے قول کا اگر یہ مطلب ہے کہ اب ان بھانجوں کی اولاد کا میراث میں کوئی حصہ نہیں ہے، یہ بات درست نہیں، اور مذکورہ زمین میں بھانجوں کی اولاد کا بطور میراث اپنے شرعی حصے کا مطالبہ کرنا درست ہے، ان کو ان کا شرعی حصہ ملے گا، دیگر ورثاء پر لازم ہے کہ وہ بھانجو ں کی اولاد کو ان کا شرعی حصہ دے دیں، ورنہ آخرت میں دینا پڑے گا اور وہاں دینا آسان نہیں ہوگا۔
حدیث شریف میں ہے کسی کی ایک بالشت زمین نا حق لینے سے قیامت کے دن سات طبقے زمین اس کے گلے میں طوق بنا کر ڈالے جائیں گے، اور اگر عالم کی مراد یہ ہو کہ زمین میں شرعی حصہ نہ ملنے کی وجہ سے وہ آخرت کا توشہ بن گیا ہے، اور اب آخرت میں اس کا حساب ہوگا، اس اعتبار سے مذکورہ عالم کی بات درست ہے۔
تکملہ شامی میں ہے:
"الارث جبري لا يسقط بالاسقاط."
(کتاب الدعویٰ، باب التحالف، ج:8، ص:116، ط:سعید)
تکملہ شامی میں ہے:
"ولو قال تركت حقي من الميراث أو برئت منها ومن حصتي لا يصح وهو على حقه، لان الارث جبري لا يصح تركه."
(کتاب الدعویٰ، باب دعوی النسب، ج:8، ص:208، ط:سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144511100964
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن