بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 ذو الحجة 1445ھ 01 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

حربی کے سودی مال سے لگے ہوئے سبیل سے پانی پینے کے جواز پر اشکال اور اس کا جواب


سوال

 آپ حضرات کے یہاں سے ایک شائع فتویٰ جس کا عنوان ہے "دارالحرب میں کافر سے سودی معاملات اور کافر کے سودی پیسے سے لگائی ہوئی سبیل سے پانی پینا دونوں مسئلوں کی وضاحت" اس مسئلہ کے بارے میں تشفی نہیں ہورہی کیوں کہ جہاں تک دیگر  مسائل ہےمثلا خمر وخنزیر کا تعلق ہے تو ان چیزوں میں تو ان کے کفار کے حق میں مالِ متقوم ہونے میں تو کوئی اشکال نہیں، لیکن سود کے بارے میں بھی وہی حکم (تقوم ومالیت کافر کے حق میں) ہے، تو یہ بات اولاً تو صراحتاً فقہاء حنفیہ کی عبارتوں میں بندے کو نظر نہیں آیا،  ثانیاً یہ کہ اس مسئلہ کے مطابق عبارت  نہیں ملتی تو دوسرے مسئلوں پر قیاس کرلیتے،  لیکن ہوا یہ کہ صراحتاً مذکورہ مسئلہ کا برعکس مبسوط میں موجود ہے عبارت ملاحظہ ہو:

"وكان نظير ذلك من العقود الربا، فإنه يتعرض لهم في إبطال عقود الربا بينهم؛ لأنا لم نضمن لهم ترك التعرض لهم في ذلك لقول رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: «إلا من أربى فليس بيننا، وبينه عهد» وهذا لأن ذلك فسق منهم في الاعتقاد، ولا ديانة فقد ثبت بالنص حرمة الربا في اعتقادهم قال الله تعالى: {وأخذهم الربا وقد نهوا عنه} [النساء: ١٦١]"

یہ عبارت سیاق وسباق کے ساتھ مبسوط ملاحظہ فرمالیجئے اور تشفی بخش جواب عنایت فرماکر ممنون فرمائیں۔

جواب

 دارالافتاء کی طرف سے دئے گئے سابقہ سوال میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں بتادیا گیا تھا کہ مسلمان کے سودی پیسے سے قائم سبیل سے پانی پینا درست نہیں ہے، جبکہ کافر کے سودی پیسے سے قائم سبیل سے پانی پینا درست ہے، اور ان میں فرق کی وجہ ان کی بنیاد  کا مختلف ہونا ہے، وہ یہ کہ جب تک کوئی شخص اسلام قبول نہ کرے اس وقت تک وہ اسلام کے فروعی اَحکام کا مکلف نہیں ہے،  اب اگر غیر مسلم سودی معاملہ کرکے سودی کمائی حاصل کرتا ہے اور کسی مسلمان پر صرف کرتا ہے تو اس معاملے میں مسلمان کا عمل دخل نہیں ہے، اور غیر مسلم ابھی تک مسلمان نہیں ہے، اس لیے اسے "ربا" (سود) کی حرمت کا مکلف قرار نہیں دیا جاسکتا، لہٰذا اس نے اگر اپنی کمائی سے مسلمان کو کھلا پلا دیا تو اس کی اجازت ہے۔ لیکن جو شخص اسلام قبول کرلے وہ اسلام کے تمام  احکام کا مکلف ہے، خواہ وہ اصولی (عقائد سے متعلق) ہوں یا فروعی (اعمال سے متعلق) ہوں، لہٰذا مسلمان خواہ دار الحرب میں ہو یا دار الاسلام میں، اور وہ سودی معاملہ مسلمان سے کرے یا غیر مسلم سے،  اس کی طرف  سود کی حرمت کا حکم متوجہ رہے گا،اور  ان تمام صورتوں میں اس کی آمدن حرام ٹھہرے گی، باقی مبسوط کی عبارت ذمیوں سے متعلق ہے،  حربی کے احکام سے متعلق نہیں ہے،یعنی سود جس طرح دارالاسلام میں مسلمان کے لیے حرام ہے، اسی طرح ذمیوں کے لیے بھی حرام ہے، تو اس کےسود کے پیسوں سے  سبیل کا بھی وہی حکم ہےجو مسلمان کے سودی پیسوں سے ہے، مبسوط کی مکمل عبارت ملاحظہ فرمائیں:

"ثم وجوب الضمان بالإتلاف لا يكون به المحل مالا متقوما، ولكن شرط سقوط الضمان بالإتلاف انعدام المالية والتقوم في المحل، وهذا الشرط لم يثبت في حقهم مع أنا لما ضمنا بعقد الذمة ترك التعرض لهم فقد التزمنا حفظها وحمايتها لهم، والعصمة والإحراز تتم بهذا الحفظ، ووجوب الضمان بالإتلاف ينبني على ذلك، فكان هذا من ضرورة ما ضمناه بعقد الذمة، بخلاف قتل المرتد فإنا ما ضمنا لهم ترك التعرض في ذلك لما فيه من الاستخفاف بالدين، وكان نظير ذلك من العقود الربا، فإنه يتعرض لهم في إبطال عقود الربا بينهم؛ لأنا لم نضمن لهم ترك التعرض لهم في ذلك لقول رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: «إلا من أربى فليس بيننا، وبينه عهد» وهذا لأن ذلك فسق منهم في الاعتقاد، ولا ديانة فقد ثبت بالنص حرمة الربا في اعتقادهم قال الله تعالى: {وأخذهم الربا وقد نهوا عنه} [النساء: 161]".

(المبسوط، کتاب الغصب، ج:11، ص:103، ط:دارالمعرفۃ)

الإحکام  في أصول الأحکام  للآمدي    میں ہے:

"فلا تكليف قبل الإيمان، وهو المطلوب."

( جلد ۱ ، ص : ۱۴۵ ط : المکتب الاسلامی بیروت )

کفایت المفتی میں ہے ۔

"( سوال ) ایک ہندو ٹھیکدار نے جس کا واحد ذریعہ معاش خنزیر کا گوشت بیجنا ہے، ایک خوشی کی تقریب میں لڈو بنوا کر بازار کے عام ہندو مسلمان کو تقسیم  کیے ہیں،  کیا ایسی حرام کمائی کی مٹھائی کھانا مسلمانوں کو جائز ہے  ؟ 

( جواب ) جس شخص کی کمائی حرام ہو و ہ اگر کسی دوسرے شخص سے قرض لے کر مسلمانوں کو کوئی چیز تقسیم کرے تو اس قرض لی ہوئی چیز کو لےلینا اور استعمال کرنا جائز ہے، لیکن ایسے شخص سے جو خنزیر کی بیع و شراء کرتا ہے،  مسلمانوں کو علیحدگی کرنی  چاہیے اور اس کی چیزیں مسلمانوں کو استعمال کرنی بہتر نہیں،  یہ حکم مسلمانوں کا ہے،  مگر سوال میں مذکور ہے کہ وہ شخص ہندو ہے تو ہندوؤں کے مذ ہب میں اگر بیعِ خنزیر جائز ہے تو مسلمانوں کو ان کی تحصیلِ معاش بذریعہ بیعِ  خنزیر پر لحاظ کرنا ضروری نہیں ۔ " 

( جلد 9،ص : 131، ط: دار الاشاعت ) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311100099

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں