آن لائن کاروبار کرنا کیسا ہے؟اور برائے مہر بانی ان جائز کاموں کی لسٹ بھیج دیں جو شرعی اعتبار سے جائز ہوں، جیسے کہ آن لائن ایپ کے ذریعہ ٹریڈنگ۔
آن لائن کاروبار کرنے کی بہت سی صورتیں ہیں اور گزرتے زمانہ کے ساتھ اس میں اضافہ ہوتا رہتا ہے،اس لیے آن لائن کاروبار کی تمام اقسام کا احاطہ مشکل ہے، البتہ شریعت ِ مطہَّرہ نے خریدوفروخت اور تجارتی معاملات کرنے کے ضابطے اور شرائط بیان کردیے ہیں ؛ لہذاجس کاروبار میں بھی ان ضوابط اور شرائط کی رعایت کی جائے گی وہ کاروبار شرعی نقطۂ نظر سےجائز ہوگا، خواہ وہ کاروبار آن لائن ہی ہو، اورجس کاروبار میں ان ضوابط وشرائط کا لحاظ نہ رکھاجائے تو وہ کاروبار (چاہے آئن لائن ہی کیوں ہو) ناجائز ہوگا، چناں چہ آن لائن کاروبار کے بارے میں اصولی طور پر درج ذیل چند شرعی ضابطے ہیں:
بہرحال آن لائن کاروبار میں اگر ان شرائط وضوابط کی پابندی کی جائے گی، تو یہ جائز ہوگا، اور اگر ان شرائط وضوابط کی رعایت نہ ہوگی تو ناجائز ہوگا، باقی اگر آپ کا مقصود آن لائن کاروبار کی کوئی خاص صورت کا حکم معلوم کرنا ہے، تو وہ صورت وضاحت کے ساتھ لکھ کر سوال دوبارہ ارسال کردیں۔
صحیح مسلم میں ہے:
"عن عبد الرحمن بن القاسم، عن أبيه، أنه سمع عائشة، تقول: دخل علي رسول الله صلى الله عليه وسلم وقد سترت سهوةً لي بقرام فيه تماثيل، فلما رآه هتكه وتلون وجهه، وقال: يا عائشة: "أشدّ الناس عذاباً عند الله يوم القيامة الذين يضاهون بخلق الله"، قالت عائشة: فقطعناه، فجعلنا منه وسادةً أو وسادتين."
(كتاب اللباس، باب تحريم تصوير صورة الحيوان، ج: 3، ص: 1668، رقم: 2107، ط: دار إحياء التراث العربي)
ترجمہ: "ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے اور میں نے ایک طاق یا مچان کو اپنے ایک پردے سے ڈھانکا تھا جس میں تصویریں تھیں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دیکھا تو اس کو پھاڑ ڈالا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے عائشہ! سب سے زیادہ سخت عذاب قیامت میں ان لوگوں کو ہو گا جو اللہ کی مخلوق کی شکل بناتے ہیں۔“ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: میں نے اس کو کاٹ کر ایک تکیہ بنایا یا دو تکیے بنادیے۔"
بدائع الصنائع میں ہے:
"(ومنها) أن يكون المبيع معلوماً وثمنه معلوماً علماً يمنع من المنازعة."
(كتاب البيوع، فصل في شرائط الصحة في البيع، ج: 5،ص: 156، ط: دار الكتب العلمية)
وفيه أيضاً:
"ونهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيع فيه غرر."
(كتاب البيوع، فصل في شرائط الصحة في البيع، ج: 5،ص: 163، ط: دار الكتب العلمية)
البحر الرائق میں ہے:
"فالحاصل أن كل جهالة تفضي إلى المنازعة مبطلة فليس يلزم أن ما لايفضي إليها يصح معها بل لا بد مع عدم الإفضاء إليها في الصحة من كون المبيع على حدود الشرع ألا ترى أن المتبايعين قد يتراضيان على شرط لا يقتضيه العقد وعلى البيع بأجل مجهول كقدوم الحاج ونحوه ولايعتبر ذلك مصحّحًا، كذا في فتح القدير."
(کتاب البيع، ج: 5، ص: 328، ط: دار الكتاب الإسلامي)
فتاوی شامی میں ہے:
"(باع فلوسا بمثلها أو بدراهم أو بدنانير فإن نقد أحدهما جاز) وإن تفرقا بلا قبض أحدهما لم يجز."
(كتاب البيوع، باب الربا، ج: 5، 179، ط: سعيد)
وفيه أيضاً:
" في الدر: (بطل بيع ما ليس بمال) والمال ما يميل إليه الطبع ويجري فيه البذل والمنع درر.
وفي الرد: (قوله بطل بيع ما ليس بمال) أي ما ليس بمال في سائر الأديان."
(كتاب البيوع، باب البيع الفاسد، ج: 5، ص: 50، ط: سعيد)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144601100660
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن