بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

آئن لائن کاروبار کرنے کےشرائط وضوابط


سوال

آن لائن کاروبار کرنا کیسا ہے؟اور برائے مہر بانی ان جائز کاموں کی لسٹ بھیج دیں جو شرعی اعتبار سے جائز ہوں، جیسے کہ آن لائن ایپ کے ذریعہ ٹریڈنگ۔

جواب

 آن لائن کاروبار  کرنے کی بہت سی صورتیں ہیں اور  گزرتے زمانہ کے ساتھ  اس میں اضافہ ہوتا رہتا ہے،اس لیے آن لائن کاروبار  کی تمام  اقسام کا احاطہ  مشکل ہے،  البتہ   شریعت ِ مطہَّرہ نے خریدوفروخت اور تجارتی معاملات کرنے کے ضابطے  اور شرائط بیان کردیے ہیں ؛ لہذاجس کاروبار میں بھی ان ضوابط اور شرائط کی رعایت کی جائے گی وہ کاروبار شرعی نقطۂ نظر سےجائز ہوگا، خواہ وہ کاروبار آن لائن ہی ہو، اورجس کاروبار میں ان ضوابط وشرائط کا لحاظ نہ رکھاجائے تو  وہ کاروبار (چاہے آئن لائن ہی کیوں ہو) ناجائز ہوگا، چناں چہ آن لائن کاروبار کے بارے میں اصولی طور پر درج ذیل چند شرعی ضابطے ہیں:

  • آن لائن کاروبار میں بیچنے کے لیے جس  مطلوبہ چیز کا اشتہار یا تصویر دی جارہی ہو، وہ حقیقتا  ًبیچنے والے کی ملکیت ہو، اگر وہ  چیز بیچنے والے کی ملکیت نہ ہو، لیکن مالک ہونے کا تاثر دے کر سودا کیا جائے تو یہ جائز نہیں ہے، البتہ اگر اس چیز کے بارے میں کسٹمرز سے یہ کہتے ہو ئے کہ" آپ کی مطلوبہ چیز میری ملکیت میں نہیں ہے،البتہ میں اسے خرید کرآپ کو اتنی قیمت میں فروخت کرسکتاہوں" وعدۂ بیع کرلے اور پھر خود خرید کر وعدہ کےمطابق اس کو بیچ دے تو جائز ہو گا۔
  • مطلوبہ  چیز  کی مکمل تفصیلات سے کسٹمرز کو آگاہ کیا گیاہو۔
  • حرام اشیاء کی خرید وفروخت نہ ہو۔
  • کسی قسم کا سودی معاملہ نہ ہو، مثلاً فروخت کی گئی چیز کی قیمت وصول کرنے کے لیے کریڈٹ کارڈ کا استعمال نہ کیا جائے، کیوں کہ اس میں ایک تو سود دینے پر رضامندی کا معاہدہ ہوتا ہے اور یہ گناہ ہے، دوسرا یہ کہ بروقت ادائیگی نہ ہونے پر سود ادا کرنا لازم ہوتا ہے، بلکہ اس کی جگہ ڈیبٹ کارڈ یا کیش آن ڈیلوری کے طریقے کو استعمال کیا جائے۔
  • دھوکہ اور خیانت سے پاک ہو۔
  • مطلوبہ چیز بیچتے وقت کوئی شرط فاسد (یعنی ایسی شرط جس کی وجہ سے مبیع یا ثمن میں ملکیت ثابت نہ ہوسکے یا جس میں بائع ومشتری کا کوئی فائدہ ہو) نہ لگائی گئی ہو۔
  • اشتہار میں جان دار کی تصاویر نہ ہوں۔
  • جو چیزیں بیچی جارہی ہوں،وہ سونا چاندی کے قبیل سے نہ ہوں، کیوں کہ سونا چاندی کی بیع(تجارت)کے جائز ہونے کے لیے ان کا  ایک ہی مجلس میں ہاتھ در ہاتھ  معاملہ کا ہونا ضروری ہے۔

بہرحال آن لائن کاروبار میں اگر ان شرائط وضوابط کی پابندی کی جائے گی، تو یہ جائز ہوگا، اور اگر ان شرائط وضوابط کی رعایت نہ ہوگی تو ناجائز ہوگا، باقی اگر آپ کا مقصود  آن لائن کاروبار کی کوئی خاص صورت کا حکم معلوم کرنا ہے، تو وہ صورت وضاحت کے ساتھ لکھ کر سوال دوبارہ ارسال کردیں۔

صحیح مسلم میں ہے:

"عن عبد الرحمن بن القاسم، عن أبيه، أنه سمع عائشة، تقول:‏‏‏‏ دخل علي رسول الله صلى الله عليه وسلم وقد سترت سهوةً لي بقرام فيه تماثيل، ‏‏‏‏‏‏فلما رآه هتكه وتلون وجهه، ‏‏‏‏‏‏وقال: يا عائشة:‏‏‏‏ "أشدّ الناس عذاباً عند الله يوم القيامة الذين يضاهون بخلق الله"، ‏‏‏‏‏‏قالت عائشة:‏‏‏‏ فقطعناه، ‏‏‏‏‏‏فجعلنا منه وسادةً أو وسادتين."

(كتاب اللباس، باب تحريم تصوير صورة الحيوان، ج: 3، ص: 1668، رقم: 2107، ط: دار إحياء التراث العربي)

ترجمہ: "ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے اور میں نے ایک طاق یا مچان کو اپنے ایک پردے سے ڈھانکا تھا جس میں تصویریں تھیں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دیکھا تو اس کو پھاڑ ڈالا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے عائشہ! سب سے زیادہ سخت عذاب قیامت میں ان لوگوں کو ہو گا جو اللہ کی مخلوق کی شکل بناتے ہیں۔“  سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: میں نے اس کو کاٹ کر ایک تکیہ بنایا یا دو تکیے بنادیے۔" 

بدائع الصنائع میں ہے:

"(ومنها) أن يكون المبيع معلوماً وثمنه معلوماً علماً يمنع من المنازعة."

(كتاب البيوع، فصل في شرائط الصحة في البيع، ج: 5،ص: 156، ط: دار الكتب العلمية)

وفيه أيضاً:

"ونهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيع فيه غرر."

(كتاب البيوع، فصل في شرائط الصحة في البيع، ج: 5،ص: 163، ط: دار الكتب العلمية)

البحر الرائق میں ہے:

"فالحاصل أن كل جهالة تفضي إلى المنازعة مبطلة فليس يلزم أن ما لايفضي إليها يصح معها بل لا بد مع عدم الإفضاء إليها في الصحة من كون المبيع على حدود الشرع ألا ترى أن المتبايعين قد يتراضيان على شرط لا يقتضيه العقد وعلى البيع بأجل مجهول كقدوم الحاج ونحوه ولايعتبر ذلك مصحّحًا، كذا في فتح القدير."

(کتاب البيع، ج: 5، ص: 328، ط: دار الكتاب الإسلامي)

فتاوی شامی میں ہے:

"(باع فلوسا بمثلها أو بدراهم أو بدنانير فإن نقد أحدهما جاز) وإن تفرقا بلا قبض أحدهما لم يجز."

(كتاب البيوع، باب الربا، ج: 5، 179، ط: سعيد)

وفيه أيضاً:

" في الدر: (بطل بيع ما ليس بمال) والمال ما يميل إليه الطبع ويجري فيه البذل والمنع درر.

وفي الرد: (قوله بطل بيع ما ليس بمال) أي ما ليس بمال في سائر الأديان."

(كتاب البيوع، باب البيع الفاسد، ج: 5، ص: 50، ط: سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144601100660

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں