بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

سونا قرض پر لے کر ادا کرنے کاطریقہ


سوال

آج سے 16 سال پہلے میں نے گھر خریدنے کے لیے میں نےابو سے 31 گرام گولڈ کا قرض لیا تھا ،اور اپنے بھائیوں سے بھی لیا تھا گولڈ کی صورت میں پانچ پانچ تولہ ،اپنے بھائیوں کو تین سال بعد کافی پریشانی سے اس وقت کے سونے کے حساب سے واپس کر دیا، لیکن والد کو واپس نہیں کرا، پھر والد کا انتقال ہو گیا، اور میں کافی پریشانیوں میں بھی گر گیا ،پھر مجھے پتہ چلا ،گولڈ کا ادھار سود کے زمرے میں آتا ہے ،اور اس سے نکلنا چاہیے ،میں نے اپنی والدہ سے ذکر کرا، اور ہم دونوں کے مشورے سے یہ طے ہوا ،کہ آج کی موجودہ سونے کی ریٹ کے حساب سے یہ 31 گرام سونارقم كی صورت میں طےکر لیا جائے ،قرضہ لیتے وقت سونا 22 ہزار روپے تولہ تھا، اور طے کراتے وقت 46 ہزار روپے تولہ تھا ،جس کی رقم ایک لاکھ 22 ہزار روپے طے ہو گئی ،اور میرے ورثہ  کے حساب میں لکھ دی گئی ،اور میرے دستخط بھی کروا لیے، ورثے کی جب دکان فروخت ہوئی، تو کچھ بہن بھائیوں کو ورثہ مل گیا تھوڑا تھوڑا، اور جو ورثے کی بلڈنگ ہے ،اس کا ورثہ نہیں ہوا ،اس میں والدہ اور بھائی کی رہائش ہے اور بہن بھی کئی سالوں تک رہتی رہی ہیں ،آج 12 سال گزر گئے اس بات کو ،تو میرے بہن بھائی مجھ سے تقاضا کر رہے ہیں کہ ہمیں وہ 31 گرام سونے کی مد میں چاہیے، اگر میرے علم میں ہوتا تو میں دکان کے ورثے کے ٹائم ہی یہ رقم اتار چکا ہوتا ،مگر چونکہ دوسرے بہن بھائیوں کو اس وقت زیادہ ضرورت تھی تو میں نے اپنا ورثہ اس وقت نہیں لیا ،اور والدہ کے رقم طے کرنے پر میں بے فکر ہو گیا تھا کہ رقم طے ہو چکی ہے ،جب بھی ورثہ کی تقسیم ہوگی کٹ جائے گی ،مگر آج بہن بھائی کہتے ہیں، سونے کی قیمت کے حساب سے دو ،کیونکہ والدہ نے وعدہ کیا تھا ہم نے نہیں، چونکہ بہن بھائیوں کی نیت خراب ہو گئی ،میرے ورثہ کو ختم کر کے الٹا مقروض بنا رہے ہیں، جب کہ تمام فیصلے والدہ ہی کرتی ہیں، میں نے کہا کہ میں فتوی لے لیتا ہوں ،لہذا آپ میری رہنمائی فرمائیں اور سالوں سے میں بار بار کہہ رہا ہوں کہ جلد سے جلد بیچ کے ورثہ تقسیم کر دو، لیکن ہر دفعہ یہی کہتے ہیں پیسے کم لگ رہے ہیں، جب کے گھر والدہ ، بھائی اور بہن بہنوئی اور ان کے پانچ بچوں کے استعمال میں بھی ہے۔

جواب

صورت مسئولہ میں جتنےگرام سونا قرض لیا تھا، اتنےہی گرام سونا ادا کرنا ضروری ہے، اور اگرسونا ادا کرنا مشکل ہے تو جس دن ادائیگی کی جائے گی تو اس دن کی قیمت کے اعتبار سے ادائیگی کی جائے گی۔

فتاوی  شامی میں ہے:

"فإن الديون تقضى بأمثالها فيثبت للمديون بذمة الدائن مثل ما للدائن بذمته فيلتقيان قصاصًا."

(كتاب الشركة، مطلب في قبول قوله دفعت المال بعد موت الشريك أو الموكل،ج:4،ص:320،ط: سعید)

بدائع الصنائع میں ہے:

"(وأما) الذي يرجع إلى نفس القرض: فهو أن لا يكون فيه جر منفعة، فإن كان لم يجز، نحو ما إذا أقرضه دراهم غلة، على أن يرد عليه صحاحا، أو أقرضه وشرط شرطا له فيه منفعة؛ لما روي عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه «نهى عن قرض جر نفعا» ؛ ولأن الزيادة المشروطة تشبه الربا؛ لأنها فضل لا يقابله عوض، والتحرز عن حقيقة الربا، وعن شبهة الربا واجب."

(کتاب القرض،ج:7،ص:395، ط:دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144601101496

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں