بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

تنسیخ نکاح کی حقیقت اور دلیل اور مہروغیرہ کا حکم


سوال

۱،تنسیخ نکاح کی حقیقت اور اہمیت و شرعی حیثیت قرآن و احادیث کی رو شنی میں  کیا ہے ؟

۲،دور نبویﷺ یا خلفاء راشدین رضوان اللہ  کے  ادوار میں ایسا بھی کوئی قانون نافذ العمل رہ چکا تھا ؟

۳،آیاتنسیخ نکاح انجام پانے کے بعد عورت کو ملے زیورات جوکہ مہر میں دیے گئے ہوں، یا قیمتی سامان شوہر کو واپس ملیں گے؟

جواب

۱۔تنسیخ نکاح کی حقیقت یہ ہے کہ  جب نباہنے کی کوئی شکل باقی نہ رہے، اور ساتھ رہنا نا ممکن ہو گیا ہو تو پھر عورت  کالمعلقہ نہیں چھوڑ دی جائے گی ، کہ زندگی بھر پریشان رہے ،نہ شوہر کے ساتھ ہو اور نہ شادی کر سکے ،اس لئے آیت اور حدیث ’’لا ضرر ولا ضرار‘‘ کے تحت آخر اس کو چھٹکارا دینا پڑے گا ۔اور شقاق کی صورت میں فیصل کو تفریق کرنے کا حق ہے ،یہاں شقاق کا مطلب یہ ہے کہ میاں بیوی کے درمیان اب نبھنے کی کوئی شکل باقی نہیں رہی، تمام کوششیں کر ڈالیں، لیکن پھر بھی اب ایک ساتھ رہنے کے تیار نہیں ہیں ، تو ایسی صورت میں دونوں کو پریشانیوں میں چھوڑ دینا شریعت کی نگاہ میں صحیح نہیں ہے، اس لئے اب قاضی کو حق ہوگا کہ وہ اب نکاح توڑ دیں ، فسخ کردیں تا کہ عورت عدت گزار کر دوسری شادی کرلے اور اپنا گھر بسا سکے۔

چناں چہ تنسیخ نکاح کی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ ہے  کہ اگر شوہر  بیوی کانان نفقہ نہیں دیتا تو بیوی   کسی مسلمان جج کی عدالت میں اپنے شوہرکےخلاف نان ونفقہ نہ دینے  کی بناءپرفسخ ِنکاح کا مقدمہ دائر کرے،اور اولاً اپنے نکاح کو شرعی شہادت کےذریعے ثابت کرے اور یہ ثابت کرے کہ میرا شوہر باوجود قدرت کے مجھے نان ونفقہ  نہیں دیتا اور  میرے پاس نان ونفقہ کا کوئی اور انتظام  بھی نہیں ہے ۔

اس کے بعد  بیوی عدالت  کے  سامنے شرعی شہادت کے ذریعہ اپنا مدعا ثابت کرے پھر عدالت کی طرف سے  پوری تحقیق  کے بعد اگر عورت کا  دعوی درست ثابت ہو کہ شوہر  باوجود وسعت کے خرچ نہیں دیتا تو اس کے شوہر سے کہاجائےکہ اپنی بیوی کے حقوق ادا کرو یاطلاق دو ، ورنہ ہم تفریق کردیں گے،اسکے بعد بھی اگر وہ کسی صورت پر عمل نہ کرے تو عدالت نکاح فسخ کردے،اس کے بعد وہ عورت اپنی عدت (پوری تین ماہواریاں)گزارکردوسری جگہ نکاح کرنے کیلئے خود مختار ہو جائے گی۔اس کے علاوہ کسی خاص صورت میں تنسیخ نکاح کا طریقہ معلوم کرنا ہو تو اس کی تفصیل بتا کر معلوم کیا جا سکتا ہے۔

۲۔واضح رہے کہ یہ قانون لوگوں کے اخلاق کی پستی اور معاملات کی خرابی اور قانون کی کمزوری  کی بناء پر فقہائےکرام کے اجماع  اور اتفاق رائے سے وضع کیا گیا ہے،حضور اکرم ﷺ اور خلفاء راشدین ؓ کے دور میں لوگوں میں اخلاقی معیار قائم تھا،اگر میاں بیوی میں مفاہمت نہ ہو پاتی اور دونوں حدود اللہ قائم نہیں رکھ پاتے تع طلاق یا پھر خلع کی صورت میں اپنی راہیں الگ کرنے میں عافیت  جانتے۔جب کہ مرور زمان کے ساتھ مسلمانوں میں ایمانی اور اخلاقی انحطاط آیا ،ضد ہٹ دھرمی اور عدم رواداری بڑھتی چلی گئی،جس بناء پر عورت شوہر کی نا قابل برداشت مظلومیت کا شکار ہوتی ہے،جس بناءپر علماء امت نے متفقہ رائے کے مطابق قاضی کو مخصوص شرائط کے ساتھ تنسیخ نکاح کا فیصلہ دینے کی گنجائش دی ہیں۔ 

۳۔تفسیخ نکاح کا فیصلہ عام طور پر حق مہر کے ساقط کرکے دیا جاتا ہے، باقی کسی عدالت نے اگر کوئی فیصلہ دیا ہو تو اس کی تفصیلات کے ساتھ سوال بھیجا جائے پھر اس کا اور اس سے متعلقہ امور کے بارے میں شرعی حکم بتایا جا سکے گا۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"والمهر يتأكد بأحد معان ثلاثة: الدخول، والخلوة الصحيحة، وموت أحد الزوجين سواء كان مسمى أو مهر المثل حتى لا يسقط منه شيء بعد ذلك إلا بالإبراء من صاحب الحق"۔

(کتاب النکاح،الباب السابع في المهر ،الفصل الثاني فيما يتأكد به المهر والمتعة،ج:1،ص:303،ط:رشیدیہ)

فتاوی شامی میں ہے:

"وأما ركنه فهو كما في البدائع: إذا كان بعوض الإيجاب والقبول لأنه عقد على الطلاق بعوض، فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول"

(کتاب الطلاق،باب الخع،ج:3،ص:661،ط:دار الفکر)

حیلہ ناجزۃ میں ہے :

"وأما المتعنت الممتنع عن الإنفاق ففي مجموع الأمير مانصه:إن منعها نفقة الحال فلها نفقة القيام فإن لم يثبت عسره أنفق أو طلق وإلا طلق عليه.قال محشيه قوله:وإلا طلق أي طلق عليه الحاكم من غير تلوم إلي أن قال:وإن تطوع بالنفقة قريب أوأجنبي فقال ابن القاسم لها أن تفارق لأن الفراق قد وجب لها.وقال ابن عبدالرحمن لا مقال لها لأن سبب الفراق هو عدم النفقة قد انتهي وهو الذي تقضيه المدونة كما قال ابن المناصف۔"

(الرواية الثالثة و العشرون،ص:150،ط:دارالاشاعت)

فقط و اللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144601102040

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں