تقیہ اور تعزیہ میں کیا فرق ہے؟
" تعزیہ " مصیبت زدہ کو صبر دلانا، غمخواری کرنا۔
" تقیہ" حق بات کے چھپانے اور جھوٹ بولنے کا نام ہے۔
ہمارے ہاں ایک مخصوص فرقہ تقیہ اور تعزیہ کو دین اسلام کا حصہ سمجھتا ہے جو کہ سراسر غلط ہے۔
صراط مستقیم میں ہے:
”از جملہ بدعات رفضہ کہ درد یار ہندوستان اشتہار تمام یافتہ ماتم داری و تعزیہ سازی ست درماہ محرم بزعم محبت حضرت حسنین رضی اللہ عنہما… این بد عات چند چیز ست اول ساختن نقل قبورو مقبرہ وعلم وسدہ وغیرہ ہاوان معنی با لبدا ہت از قبیل بت سازی و بت پرستی ست۔“
(باب دوم، ص:59، ط:المکتبہ السلفیہ لاہور)
کفایت المفتی میں ہے:
”سوال:تعزیہ کو مذہب سے کیا تعلق ہے؟ماتم کی حقیقت کیا ہے؟
جواب:اہل سنت والجماعت کے نزدیک تعزیہ بنانا نا جائز ہے۔اور ماتم کرنا بھی خلاف شریعت ہے،کیوں کہ خدا اور رسولﷺ نے اس کی تعلیم نہیں دی۔“
(کتاب العقائد، ج:1، ص:25، ط: دار الاشاعت)
شیعہ سنی اختلاف اور صراط مستقیم میں ہے:
”تقیہ کے معنی خلاف واقع کے یا خلاف اپنے اعتقاد کے کوئی بات کہنا( جس کو جھوٹ بولنا کہتے ہیں)یا کوئی کام کرنا۔
ف :تقیہ اور نفاق بالکل ایک چیز ہے اگرچہ شیعہ تقیہ اور نفاق میں بڑا فرق بیان کرتے ہیں ، کہتے ہیں کہ تقیہ دین کو چھپانے اور بے دینی ظاہر کرنے کا نام ہے اور نفاق بالکل اس کے برعکس ہے، لیکن یہ فرق شیعوں کی ایک اصلاح کی بنیاد پر ہے، مسلمانوں کے نزدیک اپنی جن مذہبی باتیں کو شیعہ چھپاتے ہیں وہ خالص بے دینی کی ہیں، اور جن باتوں کو وہ مسلمانوں کے سامنے ظاہر کرتے ہیں وہ یقینادینی ہیں،لہذا اس کے نفاق ہونے میں کچھ شک نہیں۔“
( باب اول، عقیدہ امامت پر تقیہ کا شامیانہ، ص:264، ط:مکتبہ لدھیانوی)
ارشاد الشیعہ میں ہے:
” مذہب اسلام میں بغیر کسی اشد مجبوری کے جھوٹ بولنا بڑا گناہ اور سنگین جرم ہے مگر شیعہ اور امامیہ کے نزدیک اصل بات کو چھپانا، جھوٹ بولنا اور تقیہ کرنا خالص دین ہے، بلکہ ان کے نزدیک دین کے نو حصے جھوٹ اور تقیہ میں مضمر ہیں۔“
(تقیہ، ص:175، ط:فائن بکس پرنٹرز لاہور)
لسان العرب میں ہے:
"عزا: العزاء: الصبر عن كل ما فقدت، وقيل: حسنه، عزي يعزى عزاء، ممدود، فهو عز. ويقال: إنه لعزي صبور إذا كان حسن العزاء على المصائب. وعزاه تعزية، على الحذف والعوض، فتعزى؛ قال سيبويه: لا يجوز غير ذلك. قال أبو زيد: الإتمام أكثر في لسان العرب، يعني التفعيل من هذا النحو، وإنما ذكرت هذا ليعلم طريق القياس فيه، وقيل: عزيته من باب تظنيت، وقد ذكر تعليله في موضعه. وتقول: عزيت فلانا أعزيه تعزية أي أسيته وضربت له الأسى، وأمرته بالعزاء فتعزى تعزيا أي تصبر تصبرا. وتعازى القوم: عزى بعضهم بعضا."
(باب الیاء، فصل العین، ج:15، ص:52، ط:دار صادر، بيروت)
وفیہ ایضا:
"وتوقى واتقى بمعنى. وقد توقيت واتقيت الشيء وتقيته أتقيه وأتقيه تقى وتقية وتقاء: حذرته؛ الأخيرة عن اللحياني، والاسم التقوى، التاء بدل من الواو والواو بدل من الياء."
(باب الیاء، فصل الواو، ج:15، ص:402، ط:دار صادر، بيروت )
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144603100899
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن