بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 ذو الحجة 1445ھ 03 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

خلافِ شرع تقریب میں کھانا کھانے کا حکم


سوال

شادی میں اگر شریعت کی خلاف ورزی ہو تو اس کا ولیمہ کھانا صحیح ہے یا نہیں ؟اور اگر وہ کھانا آپ کے لیے مدرسے میں لے آئے تواس کا کیا حکم ہے؟

جواب

جس شادی کی تقریب میں خلافِ شرع امور کا ارتکاب کیاجارہا ہو، جیسے ناچ ، گانے، میوزک ، مرد و عورت کا اختلاط ، ایسی تقریب کے بارے میں اگر آدمی کو پہلے سے معلوم ہو کہ اس تقریب میں خلافِ شرع امور کا ارتکاب ہوگا تو شرکت کرنا اور وہاں کھانا کھاناجائز نہیں ہے۔

ایسی خلافِ شرع تقریب کا کھانا اگر مدرسے میں بھیجا جائے تو بہتر یہی ہے کہ نہ لیاجائے، بلکہ واپس کردیا جائے، البتہ  کھانا حلال ہے،   لے لیاگیا توایسا کھانا ،کھانا حرام نہیں ہوگا۔

جیسا کہ فتاویٰ محمودیہ میں اس کی نظیر موجود ہے:

’’سوال: اگر کسی مسلمان کے رشتہ دار ہندو کے گاؤں میں رہتے ہوں اور ہندو کے تہوار ہولی دیوالی وغیرہ پکوان، پوری، کچوری وغیرہ پکاتے ہیں، ان کا کھانا ہم لوگوں کو جائز ہے یا نہیں؟

جواب:جوکھانا کچوری وغیرہ ہندو کسی اپنے ملنے والے مسلمان کو دیں اس کا نہ لینا بہتر ہے، لیکن اگر کسی مصلحت سے لے لیا تو شرعاً اس کھانے کو حرام نہ کہا جائے گا‘‘۔

(ج:18،ص:34، ط:فاروقیہ)

بدائع الصنائع فی ترتيب الشرائع میں ہے:

"رجل دعي إلى وليمة أو طعام وهناك لعب أو غناء جملة الكلام فيه أن هذا في الأصل لايخلو من أحد وجهين إما أن يكون عالماً أن هناك ذاك وإما إن لم يكن عالماً به فإن كان عالماً فإن كان من غالب رأيه أنه يمكنه التغيير يجيب لأن إجابة الدعوى مسنونة قال النبي عليه الصلاة والسلام: «إذا دعي أحدكم إلى وليمة فليأتها» وتغيير المنكر مفروض فكان في الإجابة إقامة الفرض ومراعاة السنة وإن كان في غالب رأيه أنه لا يمكنه التغيير لا بأس بالإجابة لما ذكرنا أن إجابة الدعوة مسنونة ولا تترك السنة لمعصية توجد من الغير ألا ترى أنه لا يترك تشييع الجنازة وشهود المأتم وإن كان هناك معصية من النياحة وشق الجيوب ونحو ذلك؟ كذا ههنا.

وقيل: هذا إذا كان المدعو إماماً يقتدى به بحيث يحترم ويحتشم منه فإن لم يكن فترك الإجابة والقعود عنها أولى وإن لم يكن عالما حتى ذهب فوجد هناك لعباً أو غناءً فإن أمكنه التغيير غير وإن لم يمكنه ذكر في الكتاب، وقال: لا بأس بأن يقعد ويأكل قال أبو حنيفة - رضي الله عنه -: ابتليت بهذا مرةً لما ذكرنا أن إجابة الدعوة أمر مندوب إليه فلايترك لأجل معصية توجد من الغير هذا إذا لم يعلم به حتى دخل فإن علمه قبل الدخول يرجع ولا يدخل، وقيل: هذا إذا لم يكن إماماً يقتدى به، فإن كان لايمكث بل يخرج؛ لأن في المكث استخفافاً بالعلم والدين وتجرئةً لأهل الفسق على الفسق، وهذا لايجوز، وصبر أبي حنيفة - رحمه الله - محمول على وقت لم يصر فيه مقتدى به على الإطلاق ولو صار لما صبر، ودلت المسألة على أن مجرد الغناء  معصية وكذا الاستماع إليه وكذا ضرب القصب والاستماع إليه، ألا ترى أن أبا حنيفة - رضي الله عنه - سماه ابتلاء".

(كتاب الاستحسان جلد 5 ص: 128 ط: دار الکتب العلمیة)

فتاوی شامی میں ہے:

"دعي إلى وليمة وثمة لعب أو غناء قعد وأكل....إن لم يكن ممن يقتدى به فإن كان مقتدى ولم يقدر على المنع خرج ولم يقعد لأن فيه شين الدين....وإن علم أولا باللعب لا يحضر أصلا."

(کتاب الحضر والاباحۃ، ج:6، ص:348، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404101206

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں