بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

ایک بیٹے اور چار بیٹیوں میں تقسیمِ میراث، نیز نماز و روزے کے فدیے کا حکم


سوال

میری دادی کا انتقال 2024 میں ہوا، ورثاء میں چار بیٹیاں، اور ایک بیٹا ہے، دادی کی وراثت میں دو گھر، پانچ تولہ سونا، آٹھ لاکھ روپے نقدی ہیں، دو سال سے دادی کے سونے کی زکوۃ ادا نہیں کی گئی، تو ان کی زکوۃ اور قضاء نمازوں کا فدیہ کس طرح ادا کیا  جائے گا؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں مرحومہ دادی کے حقوقِ متقدمہ( یعنی کفن،دفن)کا خرچ( اگر کسی نے بطورِ قرض کیا ہو تو وہ)  نکالنے کے بعد، اگر مرحومہ کے ذمے کوئی قرض ہو تو وہ ادا کرنے کے بعد،  اگر مرحومہ نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو باقی ترکہ کے ایک تہائی  میں اسے نافذ کرنے کے بعد، باقی کل ترکہ منقولہ و غیرمنقولہ  کو6 حصوں میں تقسیم کر کے دو حصے بیٹے  کو،اور ایک ،ایک حصہ کر کے ہر ایک  بیٹی کو ملے گا۔

صورتِ تقسیم یہ ہے:

میت:6

بیٹابیٹیبیٹیبیٹیبیٹی
21111

یعنی فیصد کے حساب سے 100 روپے میں سے 33.33 روپے بیٹے کو اور 16.66 روپے الگ الگ ہر ایک بیٹی کو ملیں گے۔

اگر مرحومہ نے زکوۃ اور قضا نمازوں کا   فدیہ ادا کرنے کی وصیت  کی ہے تو ورثاء پر لازم ہے کہ اس کے  ترکے کے ایک تہائی  میں سے  فدیہ ادا کریں، ایک تہائی سے زائد سے فدیہ ادا کرنا واجب نہیں ہوگا، البتہ ورثاء اپنی خوشی سے ادا کر دیں تو مرحومہ پر احسان ہوگا،اور اگر فدیہ کی وصیت نہیں کی تو ایسی صورت میں ورثاء پران کی طرف سے   فدیہ ادا کرناشرعاً  لازم نہیں، البتہ اگر تمام بالغ ورثاء  از خود باہمی رضامندی سے یا جو جو چاہیں وہ  اپنی جانب سے مرحومہ  کی زکوۃ اور نمازوں کا فدیہ  ادا کریں گے تو امید ہے کہ   دادی  آخرت کی باز پرس سے بچ جائیں گی،اور ایک نماز کا فدیہ ایک صدقہ فطر کے برابر ہے اور روزانہ وتر کے ساتھ چھ نمازیں ہیں تو ایک دن کی نمازوں کےکل چھ  فدیے بن جاتے ہیں، اور ایک صدقہ فطر تقریباً پونے دو کلو گندم یا   اس کی موجودہ قیمت ہے۔ فدیہ کا مصرف وہی ہے جو زکاۃ کا مصرف ہے یعنی مسلمان فقیر جو سید اور ہاشمی نہ ہو۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 72):

"(ولو مات وعليه صلوات فائتة وأوصى بالكفارة يعطى لكل صلاة نصف صاع من بر) كالفطرة.
(قوله: وعليه صلوات فائتة إلخ) أي بأن كان يقدر على أدائها ولو بالإيماء، فيلزمه الإيصاء بها، وإلا فلا يلزمه وإن قلت، بأن كانت دون ست صلوات، لقوله عليه الصلاة والسلام: «فإن لم يستطع فالله أحق بقبول العذر منه». وكذا حكم الصوم في رمضان إن أفطر فيه المسافر والمريض وماتا قبل الإقامة والصحة، وتمامه في الإمداد. مطلب في إسقاط الصلاة عن الميت.
(قوله: يعطى) بالبناء للمجهول: أي يعطي عنه وليه: أي من له ولاية التصرف في ماله بوصاية أو وراثة فيلزمه ذلك من الثلث إن أوصى، وإلا فلا يلزم الولي ذلك؛ لأنها عبادة فلا بد فيها من الاختيار، فإذا لم يوص فات الشرط فيسقط في حق أحكام الدنيا للتعذر، بخلاف حق العباد فإن الواجب فيه وصوله إلى مستحقه لا غير، ولهذا لو ظفر به الغريم يأخذه بلا قضاء ولا رضا، ويبرأ من عليه الحق بذلك، إمداد.
ثم اعلم أنه إذا أوصى بفدية الصوم يحكم بالجواز قطعاً؛ لأنه منصوص عليه. وأما إذا لم يوص فتطوع بها الوارث فقد قال محمد في الزيادات: إنه يجزيه إن شاء الله تعالى، فعلق الإجزاء بالمشيئة لعدم النص، وكذا علقه بالمشيئة فيما إذا أوصى بفدية الصلاة؛ لأنهم ألحقوها بالصوم احتياطاً؛ لاحتمال كون النص فيه معلولاً بالعجز، فتشمل العلة الصلاة وإن لم يكن معلولاً تكون الفدية براً مبتدأً يصلح ماحياً للسيئات، فكان فيها شبهة، كما إذا لم يوص بفدية الصوم، فلذا جزم محمد بالأول ولم يجزم بالأخيرين، فعلم أنه إذا لم يوص بفدية الصلاة فالشبهة أقوى".

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144602100472

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں