میری والدہ نے شادی کی ، ان سے میں پیدا ہوا، پھر میری والدہ کو طلاق ہوئی اورمجھے بھی والدہ کے حوالہ کیا گیا، اس کے بعدمیری والدہ نے دوسری شادی کی اور اس دوسرے شوہر سے دو بیٹے اور تین بیٹیاں پیدا ہوئیں، پھرمیری والدہ اور ان کے دوسرے شوہر یعنی میرے سوتیلے والد نے مل کرایک گھر بنایا،اس کے بعد والدہ کا انتقال ہوا ،بعد میں والد کا انتقال ہو گیا،اب اس گھر کی شرعی تقسیم کیسے ہوگی؟
صورتِ مسئولہ میں سب سے پہلے گھر کی قیمت نکال کر والد اور والدہ کے حصوں کو الگ الگ کیا جائے،پھر والدہ کے ترکہ کی تقسیم کی جائے،جس کا شرعی طریقہ یہ ہےکہ مرحومہ پر کوئی قرضہ ہو تو اس کو کل مال سے، ادا کرنے کے بعد اگر مرحومہ نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو اس کو ایک تہائی مال سے نافذکرنے کے بعد ترکہ کو 12 حصوں میں تقسیم کرکےمرحومہ کے شوہر کو 3 حصے ،مرحومہ کے ہر ایک بیٹے کو 2حصےاور ہر ایک بیٹی کو 1 حصہ ملے گا۔
صورتِ تقسيم یہ ہے:
میت : والدہ، 4 / 12
شوہر | بیٹا | بیٹا | بیٹا | بیٹی | بیٹی | بیٹی |
1 | 3 | |||||
3 | 2 | 2 | 2 | ٍ1 | 1 | 1 |
یعنی فی صد کے اعتبار سے 25فی صد حصہ مرحوم کے شوہر کو،16.66 مرحومہ کے ہر ایک بیٹے کو،8.33مرحومہ کی ہر ایک بیٹی کو ملے گا۔
اس کے بعد والد مرحوم کے ترکہ کی تقسیم کی جائےیعنی سب سے پہلے مرحوم کے حقوق ِمتقدمہ یعنی تجہیز وتکفین کے اخراجات نکالنے کے بعد، مرحومہ پر کوئی قرضہ ہے تو اس کو کل مال سے ادا کرنے کے بعد اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہے تو اس کو ایک تہائی مال سے نافذکرنے کے بعد ترکہ کو 7حصوں میں تقسیم کرکے مرحوم کے ہرایک بیٹے کو2 حصےاور ہر ایک بیٹی کو ایک ایک حصہ ملےگا، اس میں سائل کا حصہ نہیں ہوگا۔
تقسیم کی صورت یہ ہے:
میت: والد،7
بیٹا | بیٹا | بیٹی | بیٹی | بیٹی |
2 | 2 | 1 | 1 | 1 |
یعنی فی صد کے اعتبار سے28.57فی صد مرحوم کے بیٹے کواور14.28 فی صد ہر ایک بیٹی کو ملے گا۔فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144511101552
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن