بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

تقسیم ترکہ سے متعلق سوالات


سوال

ہمارے والد صاحب کا انتقال ہوگیا ہے،والدہ کا انتقال ان سے پہلے ہوچکا تھا،ورثاء میں ہم دو بہنیں اور تین بھائی ہیں،والد صاحب نے اپنی ملکیت میں ایک مکان  چھوڑا ہے،ساتھ ہی تقریباً نو لاکھ کا قرضہ بھی ہے،اس مکان کی دو منزلوں میں دو بھائی رہائش پذیر ہیں،جب کہ دو منزل کرایہ پر ہیں،یہ کرایہ قرضہ کی ادائیگی کی مد میں جاتا ہے،والد صاحب کی زندگی میں خواہش تھی کہ ہم سب بہن بھائیوں کو برابر حصہ ملے،اب وفات کے بعد ورثاء میں اختلاف ہے،دو بھائی چاہتے ہیں کہ بھائیوں کو بہنوں سے دوگنا حصہ ملےجب کہ ایک بھائی اور دو بہنیں والد صاحب کی خواہش کے مطابق تقسیم کرنا چاہتے ہیں،براہ کرم آپ قرآن وحدیث کی روشنی میں راہ نمائی فرمائیں کہ :

1۔مکان کی تقسیم کیسے ہوگی؟

2۔ہم نے یہ  سنا ہے کہ کوئی  بھی شخص اپنی ملکیت کی تہائی حصے کے لیے وصیت کرسکتا ہے،تو کیا والد صاحب کی یہ خواہش اس زمرے میں آتی ہے؟

3۔اگر کوئی بھی وارث آپ کے بتائے گئے شرعی مسئلہ کو تسلیم نہ کرےاور اپنی مرضی کی تقسیم کرنا چاہےتو شرعاً اس کا کیا حکم ہے؟

جواب

1۔صورتِ مسئولہ میں مرحوم والد کے ترکہ کی تقسیم   کاشرعی طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلےمرحوم کے حقوقِ متقدمہ یعنی تجہیز و تکفین کا خرچہ نکالنے کے بعد،  مرحوم کے ذمہ  جو قرض ہے  اسے ادا کرنے کے بعد، اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو اسےباقی مال کے ایک تہائی ترکہ میں سے نافذ کرنے کے بعد، باقی کل متروکہ جائیداد منقولہ وغیر منقو لہ  کو 8حصوں میں تقسیم کرکے مرحوم کےہر ایک بیٹے کو دو،دو حصے اور اس کی  ہر ایک بیٹی کو ایک ایک حصہ ملے گا۔

صورتِ تقسیم یہ ہے:

میت:والد:8

بیٹابیٹابیٹابیٹیبیٹی
22211

یعنی 100 فیصد میں سے مرحوم کے ہر ایک بیٹے کو25 فیصد اور اس کی ہر ایک بیٹی کو12.5فیصد ملے گا۔

2۔صورتِ مسئولہ میں والد صاحب کی خواہش وصیت نہیں ہے،نیز میراث کے مال میں وارث کا حق شریعت نے متعین کر رکھا ہے، اگر کسی شخص نے اپنے کسی وارث کے لیے وصیت کی بھی ہو تو وارث کے حق میں  کی جانے والی  وصیت معتبر نہیں ہوتی ،البتہ اگر دیگر ورثاء اس وصیت کے نفاذ پر راضی ہوں تو وصیت پر عمل کیا جاسکتا ہے۔

واضح رہے کہ اللہ تعالی نے قرآنِ کریم میں میراث کے احکام اور ورثاءکے حصوں کی تفصیل نہایت وضاحت کےساتھ بیان کی ہے، چنانچہ میراث کو انہی حصوں کےمطابق تقسیم کرنا فرض ہے۔ اگر کوئی وارث اپنے حق سے زیادہ لیتا ہے یا کسی وارث کو محروم کردیا جاتا ہے یا میراث کو دانستہ طور پراللہ  تعالی کے مقرر کردہ حصوں سے ہٹ کرتقسیم کیا جاتا ہے تو یہ کبیرہ گناہ ہے،اور ایسا کرنے والا سخت گناہ کا مرتکب ہونے کے ساتھ ساتھ قرآن کریم اور احادیثِ مبارکہ میں بیان کی گئی وعید وں کا مصداق بھی ہوگا۔ چنانچہ احکامِ میراث بیان کرنے کے بعد اللہ تعالی نے میراث کو اس کے اصولوں کے مطابق تقسیم کرنے والوں کو خوش خبری اور اس کے خلاف تقسیم کرنے والوں کووعید بیان کرتے ہوئے فرمایا:

"تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ (13)وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ يُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِيهَا وَلَهُ عَذَابٌ مُهِينٌ(14)"(النساء)

ترجمہ:" یہ سب احکام مذکورہ خداوندی ضابطے ہیں اور جو شخص اللہ اور رسول کی پوری اطاعت کرے گا اللہ تعالیٰ اس کو ایسی بہشتوں میں داخل کر دیں گے جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی اور وہ ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں گے اور یہ بڑی کامیابی ہے اور جو شخص اللہ اور رسول کا کہنا نہ مانے گا اور بالکل ہی اس کے ضابطوں سے نکل جائے گا اس کو آگ میں داخل کریں گے اس طور سے کہ وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہے گا اور اس کو ایسی سزا ہو گی جس میں ذلت بھی ہے  ۔"(از بیان القرآن)

دوسری جگہ ارشاد فرماتے ہیں:

"وَتَأْكُلُونَ التُّرَاثَ أَكْلًا لَمًّا"(الفجر:19)

ترجمہ:" اور(تم) میراث کا مال سمیٹ کر کھا جاتے ہو۔"(از بیان القرآن)

ایک اور جگہ ارشاد فرماتے ہیں:

" يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ" (النساء: 29)

"ترجمہ:اے ایمان والو!آپس میں  ایک دوسرے کے مال نا حق طور پر مت کھاؤ۔"(از بیان القرآن)

احادیث مبارکہ میں نبی کریم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں:

" عن سالم، عن أبيه قال:قال النبي صلى الله عليه وسلم: (‌من ‌أخذ ‌شيئا ‌من ‌الأرض بغير حقه، خسف به يوم القيامة إلى سبع أرضين)."

(صحیح بخاری،کتاب بدء الخلق، باب: ما جاء في سبع أرضين، ج:3، ص:1168، رقم:3024، ط:دار ابن كثير دار اليمامة دمشق)

ترجمہ: "سالم اپنے والد ( عبداللہ بن عمر) سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ جس نے کسی زمین پر ناحق قبضہ کر لیا تو اسے قیامت کے دن سات زمینوں تک دھنسایا جائے گا۔"

دوسری حدیث میں آتا ہے:

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من اقتطع أرضا ظالما، لقي الله وهو عليه غضبان."

(صحیح مسلم،کتاب الإیمان ،باب وعید من اقتطع حق مسلم بیمین فاجرۃ بالنار ،ج:1،ص:124،رقم:139،ط:دار احیاء التراث العربی)

ترجمہ:"جس نے ظلم کرتے ہوئے زمین روک لی وہ اللہ تعالی سے اس حال میں ملے گا کہ اللہ تعالی اس پر غصہ ہونگے (اور اس سے ناراض ہوں گے )۔"

ایک اور حدیث میں آتا ہے:

 "وعن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من قطع ميراث وارثه قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة» . رواه ابن ماجه."

(مشکاۃ المصابیح،کتاب الفرائض والوصایا، باب الوصایا، ج:2، ص:926، رقم:3078، ط:المكتب الإسلامي بيروت)

ترجمہ:"حضرت انس کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص اپنے وارث کی میراث کاٹے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی جنت کی میراث کاٹ لے گا۔"

فتاوی شامی میں ہے:

"(ولا لوارثه وقاتله مباشرة) لا تسبيبا كما مر (إلا بإجازة ورثته) لقوله عليه الصلاة والسلام «لا وصية لوارث إلا أن يجيزها الورثة» يعني عند وجود وارث آخر كما يفيده آخر الحديث وسنحققه (وهم كبار) عقلاء فلم تجز إجازة صغير ومجنون وإجازة المريض كابتداء وصية ولو أجاز البعض ورد البعض جاز على المجيز بقدر حصته."

(کتاب الوصایا،ج:6،ص:655/656،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144604100768

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں