بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

تقسیم وراثت/بیوہ،تین بیٹے،اورایک بیٹی


سوال

1:۔میرے والدمرحوم کاانتقال ہواجب کہ ان کے ورثاء میں بیوہ،تین بیٹے،اورایک بیٹی ہے،ان میں وراثت کس طرح تقسیم کی جائے گی۔

2:۔والدمرحوم نے ایک  گاڑی کمپنی سے خریدی تھی،جن میں سے 65.77فیصدوالدمرحوم نے اپنی زندگی میں اداکئے جب کہ 34.33 فیصد کمپنی نے معاف کرکے گاڑی ہمارے حوالے کردی ،والدہ چوں کہ عدت میں تھی توگاڑی بڑے بھائی کے نام منتقل ہوئی ،سوال یہ ہے کہ کیا مذکورہ گاڑی بڑے بھائی کی ملکیت ہے یاتمام ورثاء میں تقسیم ہوگی؟

3:۔میرے والدمرحوم نے ایک بیمہ پالیسی بھی لی ہوئی تھی،جس کاچیک والدہ کے نام وصول ہوا،کیا یہ بیمہ کی رقم ترکہ شمارہوگی یاوالدہ کی ملکیت شمارہوگی؟

4:۔بیمہ کی رقم اصل کے علاوہ اگرسرکاری اداروں میں جہاں رشوت کے بغیر کام نہیں ہوتاوہاں بطوررشوت استعمال کرناجائز ہے یانہیں؟

جواب

1:۔صورت مسئولہ میں مرحوم کے حقوق متقدمہ یعنی کفن دفن کاخرچہ نکالنے کےبعد،اگرمرحوم پرقرض ہوتواسے اداکرنےکےبعد،اگرمرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہوتواسے کل مال کے تہائی سے نافذکرنےکےبعدمابقیہ ترکہ کو8حصوں میں تقسیم کرکےایک حصہ بیوہ کو،دو،دوحصےہرایک بیٹےکو،اورایک حصہ بیٹی کوملےگا۔

صورتِ تقسیم یہ ہے:

مرحوم(والد)8

بیوہبیٹابیٹابیٹابیٹی
1222

1

یعنی فیصدکے اعتبارسے/12.5فیصدبیوہ کو،/25،25فیصدہرایک بیٹے کو،اور/12.5فیصدبیٹی کوملیں گا۔

2:۔گاڑی تمام  ورثاء میں ان کے حصوں کے بقدر تقسیم کی جائےگی۔

3:۔بیمہ پالسی سے ملنے والی زائدرقم چوں کہ حلال نہیں لہذا زائد رقم  صدقہ کی جائے اور اصل  رقم تمام ورثاء میں تقسیم کی جائے۔

4:۔ زائد رقم بطور رشوت دینا جائز نہیں ۔

قرآنِ کریم میں ہے:

" يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ."

"ترجمہ: ”اے ایمان والوں! شراب، اور جوا اور بت اور فال کے تیرسب شیطان کے گندے  کام ہیں،سو بچتے رہو تاکہ تم نجات پاؤ۔“

(سورة المائدة90)

الجامع لاحکام القرآن (تفسير القرطبي) میں ہے:

"وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوا بِهَا إِلَى الْحُكَّامِ لِتَأْكُلُوا فَرِيقًا مِنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالْإِثْمِ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ."

الْخِطَابُ بِهَذِهِ الْآيَةِ يَتَضَمَّنُ جَمِيعَ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالْمَعْنَى: لَا يَأْكُلُ بَعْضكُمْ مَالَ بَعْضٍ بِغَيْرِ حَقٍّ. فَيَدْخُلُ فِي هَذَا: الْقِمَارُ وَالْخِدَاعُ وَالْغُصُوبُ وَجَحْدُ الْحُقُوقِ، وَمَا لَاتَطِيبُ بِهِ نَفْسُ مَالِكِهِ، أَوْ حَرَّمَتْهُ الشَّرِيعَةُ وَإِنْ طَابَتْ به نفس مالكه، كهر الْبَغِيِّ وَحُلْوَانِ الْكَاهِنِ وَأَثْمَانِ الْخُمُورِ وَالْخَنَازِيرِ وَغَيْرِ ذَلِكَ...

وَأُضِيفَتِ الْأَمْوَالُ إِلَى ضَمِيرِ المنتهى لَمَّا كَانَ كُلُّ وَاحِدٌ مِنْهُمَا مَنْهِيًّا وَمَنْهِيًّا عنه، كما قال:" تَقْتُلُونَ أَنْفُسَكُمْ ". وَقَالَ قَوْمٌ: الْمُرَادُ بِالْآيَةِ" وَلا تَأْكُلُوا أَمْوالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْباطِلِ «3» " أَيْ فِي الْمَلَاهِي وَالْقِيَانُ وَالشُّرْبُ وَالْبَطَالَةُ، فَيَجِيءُ عَلَى هَذَا إِضَافَةُ الْمَالِ إِلَى ضَمِيرِ الْمَالِكِينَ. الثَّالِثَةُ- مَنْ أَخَذَ مَالَ غَيْرِهِ لَا عَلَى وَجْهِ إِذْنِ الشَّرْعِ فَقَدْ أكله بالباطل، ومن الأكل بالباطل أن يقتضى الْقَاضِي لَكَ وَأَنْتَ تَعْلَمُ أَنَّكَ مُبْطِلٌ، فَالْحَرَامُ لَا يَصِيرُ حَلَالًا بِقَضَاءِ الْقَاضِي، لِأَنَّهُ إِنَّمَا يَقْضِي بِالظَّاهِرِ. وَهَذَا إِجْمَاعٌ فِي الْأَمْوَالِ."

(سورة البقرة، رقم الآية:188، ج:2، ص:338، ط:دارالكتب المصرية)

صحیح مسلم  میں ہے:

"عن جابر، قال:لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم أكل الربا، وموكله، ‌وكاتبه، ‌وشاهديه، وقال: هم سواء."

ترجمہ:” حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضوراکرمﷺ نے سود کھانے والے، اور کھلانے والے اور (سودکاحساب) لکھنے والے اور سود پر گواہ بننے والے پر لعنت فرمائی ہے،اور فرمایا: کہ وہ سب (گناہ میں) برابر ہیں۔“

(کتاب لمساقات، ج:3، ص:1219، ط:داراحیاءالتراث العرب)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"لا يثبت الملك للموهوب له إلا بالقبض هو المختار."

(كتاب الهبة، الباب الثاني فيما يجوز من الهبة وما لا يجوز، ج:4، ص:378، ط:دارالفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144601102003

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں