بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1446ھ 16 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

تراویح میں ایک دفعہ بلند آواز سے بسم اللہ پڑھ لینا کافی ہے


سوال

ختم تراویح کے دوران  سورہ اخلاص پڑھنے میں کتنی مرتبہ بسم اللہ الرحمن الرحیم بلند آواز سے پڑھنا چاہیے؟

جواب

امام کے لیے تراویح کے دوران ہرسورت کے شروع میں آہستہ آواز سے بسم اللہ پڑھنا مستحب ہے، باقی امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک " بسم اللہ " ہر سورت کا جز نہیں ہے، بلکہ قرآن کا جز ہے، یعنی  قرآن کی ایک آیت ہے، لہذا  تراویح میں بلند آواز سے ایک مرتبہ بسم اللہ  پڑھ لینے سےامام اور مقتدی کا قرآن مکمل ہوجائے گا، بطور خاص سورتِ اخلاص سے قبل بسم اللہ جہراًپڑھنے کا حکم نہیں ہے۔

'' امداد الاحکام'' میں ہے:

''  امام عاصم یا حفص کی تقلید صرف قرآن کی تلاوت اور وجوہِ قرات میں کی جاتی ہے ، باقی احکامِ صلاۃ میں ان کی تقلید نہ ہوگی ،بلکہ اس میں فقہاء کی تقلید ہوگی، سو ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک بسم اللہ صرف ایک مرتبہ پڑھناختمِ قرآن کے لیے ضروری ہے، اگرایک دفعہ کسی سورت پر بسم اللہ پڑھ دی گئی تو قرآن پورا ہوگیا اور بہتریہ ہے کہ ایک دفعہ تراویح میں اس آیت کوجہراً پڑھاجائے ، جیسا کہ تراویح میں سارا قرآن جہر سے پڑھاجاتا ہے، اگرامام کسی جگہ بھی بسم اللہ کوجہر سے نہ پڑھے، بلکہ کسی ایک جگہ سراً پڑھ لے تو امام کاختم توپورا ہوجائے گا، لیکن سامعین کے ختم میں ایک آیت کی کمی رہے گی، باقی سب سورتوں کے اول میں بسم اللہ کوجہر سے پڑھنا امام صاحب رحمہ اللہ کے نزدیک مکروہ  ہے، اور ہرسورت کے اول میں سراً پڑھنا جائز ہے،بلکہ اگرمقتدیوں پرتطویل کاخوف نہ ہو تو مستحب ہے، واللہ اعلم، ۲ جمادی الاولیٰ ۴۵ھ''۔

( امداد الاحکام 1/630، ط: مکتبہ دارالعلوم کراچی)

مجموعہ رسائل امام لکھنوی ؒمیں ہے:

"ولو قرأ تمام القرآن في التراويح و لم يقرأ البسملة في ابتداء سورة من السور سوى ما في سورة النمل، لم يخرج عن عهدة السنية، و لو قرأها الإمام سرًّا خرج عن العهدة، و لكن لم يخرج المقتدون عن العهدة".

( مجموعة الرسائل اللكنوي، أحكام القنطرة في أحكام البسملة،ج: 1،ص: 71، ط: ادارة القرآن و العلوم الإسلامية، كراتشي)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"(ثم يأتي بالتسمية) ويخفيها وهي من القرآن آية للفصل بين السور، كذا في الظهيرية فيما يكره في الصلاة. و لايتأدى بها فرض القراءة، كذا في الجوهرة النيرة. و يأتي بها في أولّ كلّ ركعة و هو قول أبي يوسف - رحمه الله -، كذا في المحيط. و في الحجة: وعليه الفتوى."

(الباب الرابع في صفة الصلاة/ لفصل الثالث في سنن الصلاة وآدابها وكيفيتها/ج: 1/ صفحہ: 74/ ط: دار الفکر)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144609101805

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں