2009 ء میں میرے والد کا انتقال ہوا، ان کے ترکہ میں اس وقت دو دکانیں، دو گھر اور ایک خالی پلاٹ تھا، مجھے میری والدہ اور بہن بھائیوں نے کہا کہ اس خالی پلاٹ کو بیچ کر اس سے اپنی شادی کے اخراجات اٹھاؤ، میں نے اس پلاٹ کو تعمیر کیا تمام ورثاء کی رضامندی سے، پھر اس کو بیچ کر میں نے اپنی شادی کے اخراجات اٹھائے، اور ایک دکان کی جگہ پر میں نے والدہ کی رہائش کے لیے کمرہ تعمیر کیا، اس میں بھی تمام ورثاء سے اجازت لی تھی، اس کے بعد میں، میری والدہ اور میرے دو بھائی اپنے بیوی بچوں سمیت والد صاحب کے ایک گھر میں رہائش پذیر ہیں، چند دن پہلے مجھے ہمارے علاقہ کے بزرگوں نے کہا کہ آپ ڈیڑھ لاکھ روپے لے لو اور اس گھر سے نکل جاؤ، وہ لوگ مجھے کہہ رہے ہیں کہ تم نے والد صاحب کا جو پلاٹ بیچا ہے اس کی وجہ سے اب تمہارا اس مکان میں کوئی حق نہیں ہےجب کہ میں نے وہ مکان تمام ورثاء کی اجازت سے بیچا تھا اور اس وقت انہوں نے مجھے ایسی کوئی بات بھی نہیں کی تھی، اب میں چاہتا ہوں کہ والد صاحب کے موجودہ ترکہ کو ورثاء میں شرعی حصوں کے مطابق تقسیم کیا جائے، تاکہ ہر وارث کو اس کا شرعی حق مل سکے، کیوں کہ میرے دیگر بھائی میری بہنوں کو بھی محروم کرنا چاہتے ہیں، ورثاء کی تفصیل یہ ہے:ایک بیوہ، پانچ بیٹے اور پانچ بیٹیاں۔
صورتِ مسئولہ میں چوں کہ سائل نے تمام ورثاء کی رضامندی سے خالی پلاٹ تعمیر کرکے بیچا تھا اور اس وقت ترکہ میں سے حصہ نہ لینے کی بھی کوئی بات نہیں ہوئی تھی ، لہذا سائل دیگر ورثاء کے ساتھ مذکورہ گھر اور والد کے تمام ترکہ میں برابر کا شریک ہے، سائل کے دیگر بھائیوں کا سائل کو گھر سے نکالنا اور بغیر سائل کی رضامندی کے اس کو ڈیڑھ لاکھ روپے دے کر اس کو اس گھر سے نکالنا شرعًا درست نہیں ہے، لہذاوالد کے تمام ترکہ کو ورثاء کے درمیان شرعی حصوں کے مطابق تقسیم کیا جائے گا، جس میں سائل سمیت تمام ورثاء کو اس کا شرعی حق دینا لازم ہے۔
صورتِ تقسیم یہ ہے:
مرحوم والد:120/8
بیوہ | بیٹا | بیٹا | بیٹا | بیٹا | بیٹا | بیٹی | بیٹی | بیٹی | بیٹی | بیٹی |
1 | 7 | |||||||||
15 | 14 | 14 | 14 | 14 | 14 | 7 | 7 | 7 | 7 | 7 |
یعنی سو فیصدمیں سے مرحوم بیوہ کو 12.5 فیصد، ہر ایک بیٹے کو11.66فیصداور ہر ایک بیٹی کو5.83 فیصد ملے گا۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"ولا يجوز لأحدهما أن يتصرف في نصيب الآخر إلا بأمره، وكل واحد منهما كالأجنبي في نصيب صاحبه ويجوز بيع أحدهما نصيبه من شريكه في جميع الصور ومن غير شريكه بغير إذنه إلا في صورة الخلط والاختلاط، كذا في الكافي."
(کتاب الشرکة، الباب الأول في بيان أنواع الشركة، ج:2، ص:301، ط:دار الفکر)
وفیه أیضًا:
"إذا كانت التركة بين ورثة فأخرجوا أحدهما منها بمال أعطوه إياه والتركة عقار أو عروض صح قليلا كان ما أعطوه أو كثيرا."
(کتاب الصلح، الباب الخامس عشر في صلح الورثة والوصي في الميراث والوصية، ج:4، ص:268، ط:دار الفکر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144602102097
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن