میرے سسر کا انتقال ہوا ، ان کے انتقال سے پہلے ان کے ایک بیٹے (میرے سالے ) اور ان کی بیوی (میری ساس )کا انتقال ہوا،سسر کے انتقال سے کچھ عرصہ پہلے میرا دوسرا سالا جو ذہنی طور پر کمزور تھا، لا پتہ ہو گیا اور تقریبًا تین سال ہو گئے ہیں،اس کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہوا ۔ اس کے بعدان کی بیٹی ( میری بیوی) کا انتقال ہوا ہے جو کہ بھائیوں کی اکلوتی بہن تھی،ہمارا ایک ہی بیٹا ہے ،واضح رہے کہ سسر صاحب نے دوسری شادی کی تھی ، ان سے کوئی اولا د نہیں ہے، اب شرعی طور پر میراث کی تقسیم کیسے ہوگی؟ میرے سسر کے بھائی کہہ رہے ہیں کہ ہم بیٹی کو حصہ نہیں دیتے، لہذا وہ اپنی بھتیجی (میری بیوی )کا حصہ نہیں دینا چاہ رہے ہیں ، اس بارے میں شریعت کیا کہتی ہے؟
صورتِ مسئولہ میں آپ کے مرحوم سسر کا ترکہ تقسیم کرنے کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے مرحوم کے حقوقِ متقدمہ یعنی تجہیز وتکفین کا خرچہ نکالنے کے بعد، اگر مرحوم پر کسی بھی قسم کا قرضہ ہو تو اس کوکل مال سے ادا کرنے کے بعد، اگر مرحوم نےکوئی جائز وصیت کی ہو تو اس کو ایک تہائی ترکہ سے نافذکرنے کے بعد باقی ترکہ منقولہ و غیرمنقولہ کو 96حصوں میں تقسیم کر کے12 حصّے مرحوم کی بیوہ کو ،56 حصّے مرحوم کے لاپتہ بیٹے کو،7 حصّے مرحوم کے بعد وفات پانے والی بیٹی کے شوہر کو،اور 21 حصّے اس کے بیٹے کو ملیں گے۔
میت؛ سسر8/ 24/ 96
بیوہ( مرحوم کی دوسری بیوی) | بیٹا | بیٹی |
1 | 7 | |
3 | 14 | 7 |
12 | 56 | فوت شدہ |
میت؛ بیٹی 4 مف: 7
شوہر | بیٹا |
1 | 3 |
7 | 21 |
یعنی فیصد کے اعتبار سے 12.5 فیصد مرحوم کی بیوہ کو ،58.33 فیصدمرحوم کےبیٹے کو ،7.29 فیصد مرحوم کے بعد وفات پانے والی بیٹی کے شوہر کو اور 21.87فیصداس کے بیٹے کو ملیں گے۔
نیز آپ کے سسر مرحوم کے بھائی کا اپنی بھتیجی (مرحوم کی بیٹی) کو اس کے والد مرحوم کے ترکہ میں سے حصہ نہ دینا اور یہ کہنا کہ ہم بیٹیوں کو حصہ نہیں دیتے، جاہلانہ رسم ہے،نیز کسی وارث کو اس کے حصۂ میراث سے محروم کرنے اور کسی کا حق دبالینے پر احادیث مبارکہ میں بڑی وعیدیں آئی ہیں:’’حضرت سعید بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص( کسی کی ) بالشت بھر زمین بھی از راہِ ظلم لے گا،قیامت کے دن ساتوں زمینوں میں سے اتنی ہی زمین اس کے گلے میں طوق کے طور پرڈالی جائے گی‘‘، ایک اور حدیثِ مبارک میں ہے: ’’حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اپنے وارث کی میراث کاٹے گا،(یعنی اس کا حصہ نہیں دے گا) تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی جنت کی میراث کاٹ لے گا(یعنی اسے جنت سے محروم کردے گا)۔‘‘
لہذا سسر کے بھائی کو چاہیے کہ دنیا کی چند روزہ عارضی زندگی کی خاطر اپنی آخرت جو کہ دائمی ہے خراب نہ کرے اور خدا خوفی سے کام لیتے ہوئے اپنے مرحوم بھائی کی میراث شرعی ضابطہ کے مطابق تقسیم کردے۔
نیز مرحوم کے ترکہ میں سے اس کے لاپتہ بیٹے کا حصہ بھی نکالا جائے گا اور اسے امانت کے طور پر محفوظ رکھا جائے گا، یہاں تک وہ لوٹ آئے اور اس کا حصہ اس کے حوالے کردیا جائے یا اس کی عمر ساٹھ سال ہوجائے، جب اس کے عمر ساٹھ سال ہوجائے تو اس کے بعد عدالت کے ذریعہ اسے مردہ قرار دینے کا تصدیق نامہ حاصل کیا جائے اور پھر اس وقت اس کے جو ورثاء ہوں ان کے درمیان اس کا حصہ تقسیم کردیا جائے۔
بخاری شریف میں ہے:
"عن سعيد بن زيد بن عمرو بن نفيل : أنه خاصمته أروى في حق زعمت أنه انتقصه لها إلى مروان فقال سعيد: أنا أنتقص من حقها شيئا أشهد لسمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: من أخذ شبرا من الأرض ظلما فإنه يطوقه يوم القيامة من سبع أرضين."
(كتاب بدء الخلق، باب ما جاء في سبع أرضين، ج: 4، ص: 108، رقم الحدیث: 3198، ط: دار طوق النجاة)
مشکاۃ المصابیح میں ہے:
"عن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من قطع ميراث وارثه قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة."
(كتاب الفرائض والوصايا، الفصل الثالث، ج: 2 ص: 926، رقم الحدیث: 3078، ط: المكتب الإسلامي - بيروت)
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
"هو الذي غاب عن أهله أو بلده أو أسره العدو ولا يدرى أحي هو أو ميت ولا يعلم له مكان ومضى على ذلك زمان فهو معدوم بهذا الاعتبار، وحكمه أنه حي في حق نفسه لا تتزوج امرأته ولا يقسم ماله ولا تفسخ إجارته وهو ميت في حق غيره لا يرث ممن مات حال غيبته، كذا في خزانة المفتين......... ولا يرث المفقود أحدا مات في حال فقده، ومعنى قولنا " لا يرث المفقود أحدا " أن نصيب المفقود من الميراث لا يصير ملكا للمفقود، أما نصيب المفقود من الإرث فيتوقف، فإن ظهر حيا علم أنه كان مستحقا، وإن لم يظهر حيا حتى بلغ تسعين سنة فما وقف له يرد على ورثة صاحب المال يوم مات صاحب المال، كذا في الكافي"
(كتاب المفقود، ج: 2، ص: 299، ط: دار الفكر بيروت)
فتح القدیر لابن الہمام میں ہے:
"قال المصنف (والأرفق) أي بالناس (أن يقدر بتسعين) وأرفق منه التقدير بستين. وعندي الأحسن سبعون لقوله صلى الله عليه وسلم:" أعمار أمتي ما بين الستين إلى السبعين" فكانت المنتهى غالبا."
(كتاب المفقود، ج: ص: 149، ط: شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144512101089
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن