میں ایک بیوہ عورت ہوں ، شوہر کے انتقال کو 20 سال ہو گئے ہیں ، میرے 4 بیٹے اور 5 بیٹیاں ہیں ۔ 3بیٹے اور 2بیٹیاں شادی شدہ ہیں اور ایک بیٹےاور 3بیٹیوں کی شادی نہیں ہوئی ۔ میرے مرحوم شوہر نے اپنی حیات میں ایک گھر خریدا، اس گھر کو خریدنے میں میرے شوہر کے پیسے اور میرا زیور لگا ہے اور وہ گھر میرے نام ہے ۔میرے شوہر کے انتقال کے بعد میرے تین بیٹوں نے شوہر کے کاروبار کو سنبھالا ،اور اس میں ترقی کی ، اور اس کاروبار سے ایک گھر خریدا جو ایک بیٹے نے اپنے نام کر رکھا ہے ۔ اور ہم لوگ اپنا گھر بند کر کے نئےگھر میں شفٹ ہو گئے ہیں ،شادی کے بعد بیٹوں کے رویے بدل گئے ہیں اور آئے روز گھر میں جھگڑے ہو رہے ہیں بیٹوں کا کہنا ہے کہ جھگڑے تین بہنوں کی وجہ سے ہو رہے ہیں اور ان بیٹوں کو میری بچیاں بری لگتی ہیں ۔میرا دو سال سے خرچہ بند ہے دوائیوں کے لئے پریشان رہتی ہوں،اپنی بن بیاہی بچیوں اور چھوٹے بیٹے کے لیے پریشان ہوں ،اب تو نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ ٹھیک سے راشن بھی نہیں ڈلواتے کہتے ہیں کہ کاروبار میں مزہ نہیں رہا جبکہ مجھے لگتا ہے کہ یہ جھوٹ ہے۔اب بات یہاں تک آگئی ہے کہ میرے تین بیٹے جنہوں نے میرے شوہر کاکاروبار سنبھالا تھا ، وہ اب مجھے اور میری کنواری بچیوں کو برداشت نہیں کرتے ۔کئی بار غصے میں مجھے اور میری بچیوں کو برا بھلا کہا ہے یہاں تک کہ گھر سے نکل جانے کو کہا ہے ۔ذلیل کرتے ہیں اور گالیاں دیتے ہیں ۔
میرے تین بیٹے کہتے ہیں کہ یہ نیا گھر ہمارا ہےاور ہماری کمائی کا ہے اس میں صرف ہمارا حق ہے ۔
میرے مرحوم شوہر کے کاروبا ر سے جتنا مال ، پیسہ اور جائیداد بنائی ہے کیا اس میں میرا اور میری بچیوں کا حق نہیں ؟شریعت کے حساب سے رہنمائی فرمائیں۔
نوٹ:کاروبارکی جگہ وراثت میں میرے مرحوم شوہر کو ان کے والد کی طرف سےملا ہوا حصہ ہے ، اس حصے پر بیٹوں نے کمائی کی کیا اس کمائی کے حق دار صرف وہی تین بیٹے ہیں، یا بیٹیاں اوور ایک چھوٹا بیٹا بھی ہے۔
وضاحت:شوہر کے حصے میں ایک فروٹ کی دکان تھی اسی میں کام کر کے ان تین بیٹوں نے ترقی کی اور نیا گھر خریدا ہے،اپنی طرف سے کوئی نیا کام شروع نہیں کیا ۔نیز مرحوم نے سائلہ کے زیور اور اپنے پیسوں سے جو گھر خریداتھا ، اس گھر میں منتقل ہونے سے پہلے سائلہ کو ہبہ کرنے کےساتھ ساتھ اس کے نام کر دیا تھا ۔منتقل ہونے سے قبل ہی سائلہ کو کہہ دیا تھا کہ یہ تمھارامکان ہے ،نیز تمام ورثاءبھی اس پر متفق ہیں کہ یہ مکان سائلہ کا ہی ہے۔
قرآن كريم میں متعد د مقامات پر اللہ تعالی نےانسان کو حکم دیا ہے کہ اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرے، ان کی تعظیم و محبت اور خدمت گزاری کو اپنی سعادت سمجھے۔ دوسری جگہ بتلایا ہے کہ اگر والدین مشرک ہوں تب بھی ان کے ساتھ دنیا میں معاملہ اچھا رکھنا چاہیے،خصوصا ً ماں کے ساتھ حسنِ سلوک کی بہت تاکید آئی ہے کہ بعض وجوہ سے اس کا حق باپ سے بھی فائق ہے جیسا کہ احادیثِ صحیحہ اس پردال ہیں،نيزاحاديث مباركہ ميں ایسے شخص کے لیے جو والدین ،یا ان میں سے ایک کو بڑھاپے کی حالت میں پائے اور ان کی خدمت کر کے اپنی مغفرت نہ کرواسکے، وعید وارد ہے۔ ایک اور حدیث میں ہے،”حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا :جو شخص چاہتاہے کہ اس کے رزق میں وسعت وفراخی اور اس کی اجل میں تاخیر کی جائے (یعنی اس کی عمر دراز ہو) تو اس کو چاہیے کہ وہ رشتہ داروں کے ساتھ حسنِ سلوک اور احسان کرے“۔ایک دوسری حدیث میں وارد ہے " جو شخص اپنے مال میں سے اللہ تعالی کی طرف سے مقرر کردہ وارث کو محروم کر ے، اللہ تعالیٰ اس کو جنت سے محروم کردیتے ہیں“۔
لہذاسائلہ کے بیٹوں کو چاہیے کہ اپنی والدہ کے ساتھ حسنِ سلوک کے ساتھ پیش آئیں او روراثت میں ان کا حق ان کے شرعی حصوں کے مطابق ادا کریں ۔ جس کی تفصیل درج ذیل ہے ۔
مرحوم کے حقوقِ متقدمہ یعنی تجہیزوتکفین کا خرچہ نکالنے کے بعد ، اگر ان پر کوئی قرض ہو تو ترکہ سےاس کو ادا کرنے کے بعد ، اگر انہوں نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو باقی ترکہ کےایک تہائی میں ا سے نافذ کرنے کے بعد ، بقیہ کل منقولہ و غیر منقولہ ترکہ کو 104 حصوں میں تقسیم کر کے 13 حصے بیوہ کو، 14 ، 14 حصے ہر ایک بیٹے کو اور 7،7 حصے ہرایک بیٹی کو ملیں گے ۔
صورتِ تقسیم یہ ہے :
مرحوم:104/8
بیوہ | بیٹا | بیٹا | بیٹا | بیٹا | بیٹی | بیٹی | بیٹی | بیٹی | بیٹی |
1 | 7 | ||||||||
13 | 14 | 14 | 14 | 14 | 7 | 7 | 7 | 7 | 7 |
یعنی فیصد کے اعتبار سے 12.5بيوه كو ، 13.46فیصد ہر ایک بیٹے کو اور 6.73فیصدہر ایک بیٹی کو ملے گا۔
اور مرحوم نے جو گھر اپنی زندگی میں سائلہ ہی کے نام سےخریدا تھا اور اسے مالکانہ حقوق بھی دے دیے تھے،وہ گھر صرف سائلہ کا ہے ۔ اس کے علاوہ مرحوم کے چھوڑےہوئے کاروبار میں سائلہ اور دیگر تمام ورثاء حق دار ہیں،اور چونکہ ابھی تک وراثت تقسیم نہیں ہوئی اس لیے اس کاروبار سے حاصل ہونے والا سارا نفع اور اس سے بنایا گیا گھر بھی بطور میراث سب ورثاء(مرحوم کی بیوہ ، بیٹیوں اور بیٹوں وغیرہ) میں تقسیم ہو گا اور وہ سب اس کے حق دار ہیں ۔
لہذابیٹوں پرلازم ہے کہ ہر ایک وارث کو شریعت کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق حصہ ادا کریں ورنہ آخرت میں دینا پڑےگااور وہاں اداکرنا آسان نہیں ہو گا۔
سنن ابي داؤد ميں ہے:
"عن أنس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من سره أن يبسط عليه في رزقه، وينسأ في أثره، فليصل رحمه."
(كتاب الزكاة، باب البر والصلة، ج:2، ص:132، ط المكتبة العصرية، بيروت)
مشکوٰۃ المصابیح میں ہے :
"من قطع ميراث وارثه قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة."
(باب الوصایا ،الفصل الثالث، ج:2، ص:926،ط المکتبۃ الاسلامی بیروت)
فتاوی شامی میں ہے :
"(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل."
(كتاب الهبة، ج:5، ص:690،ط سعيد)
وفیہ ایضا :
"وكذا لو اجتمع إخوة يعملون في تركة أبيهم ونما المال فهو بينهم سوية، ولو اختلفوا في العمل والرأي."
(کتاب الشرکۃ، فصل فی الشرکۃ الفاسدۃ، ج:4، ص:325، ط سعید)
دررالحكام شرح المجلۃالحکام میں ہے:
"تقسم حاصلات الأموال المشتركة في شركة الملك بين أصحابها بنسبة حصصهم."
(الکتاب العاشر الشرکات، الفصل الثاني في بيان كيفية التصرف في الأعيان المشتركة، المادة 1073،ج:3، ص:26، ط دارالجیل)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144608101714
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن