میرے سسر کا انتقال سن 2018ء میں ہوا، ان کے ورثاء میں ایک بیوہ، تین بیٹے اور چھ بیٹیاں ہیں، جب کہ مرحوم کے ترکہ میں چار دکانیں اور تین فلور کی بلڈنگ ہے، سسر نے زندگی میں کہا تھا کہ ”دکان کا کرایہ جو بھی آئے گا، وہ میری بیوی یعنی اپنی والدہ کے ہاتھ میں رکھنا“ ؛کیوں کہ بچے اپنی والدہ کو خرچہ نہیں دیتے۔
اب بیٹوں کا یہ کہنا ہے کہ والدہ ان ہی کرایہ کے پیسوں سے جمع کر کے ہر بیٹی کو اس کا حصہ باری باری دے، ہم جگہ یعنی دکان وغیرہ بیچنے نہیں دیں گے، جب کہ بہنوں کا کہنا ہے کہ ہمیں پورا حصہ ایک ساتھ ہی دیں۔
تو اب سسر صاحب کا ترکہ کیسے تقسیم ہوگا؟ بیچ کر یا تقسیم کرکے یا مالیت لگا کر؟
واضح رہے کہ میت کے ترکہ میں سب ورثاء کا بقدرِشرعی حصہ اورحق ہوتا ہے، اور اگر بر وقت ترکہ تقسیم نہ کیا جائے تو ورثاء کامشترکہ مال استعمال کرنا لازم آتا ہے، اور کسی کا مال بغیر اجازت استعمال کرنا شرعاً جائز نہیں ہے، اسی طرح ترکہ کی تقسیم میں تاخیر کرنے سے بعد میں کئی مسائل کا پیدا ہو جانا ایک طبعی امر ہے، من جملہ ان میں سے ایک ورثاء میں باہمی تکرار اور گھریلو خرابیاں ہیں، اس لئے ضروری ہے کہ ترکہ کی تقسیم بر وقت شرعی طریقے پر کی جائے اور سب ورثاء(مردوعورتوں)کو ان کےشرعی حصےدیےجائیں، تقسیمِ ترکہ کے بعد پھر جو ورثاء باہمی رضامندی سے شرکت کرنا چاہتے ہیں تو وہ تمام امورکی پہلے سے وضاحت کرکے دوبارہ اپنی دکانوں اور کار و بارکو جاری رکھ سکتے ہیں، لیکن جاری کار و بار کی وجہ سے ترکہ کی تقسیم میں تاخیر کرنا کسی طرح بھی مناسب نہیں ہے، خاص کر جب بعض ورثاء اپنے حصوں کا مطالبہ بھی کر رہے ہوں، تو ایسی صورت میں بغیر شرعی عذر کے ترکہ کی تقسیم میں تاخیر کرنے کا وبال اسی پر ہوگا جو اس تقسیم میں رکاوٹ بنےگا۔
باقی صورتِ مسئولہ میں مرحوم کے مذکورہ ترکہ کی تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ ترکہ میں سے جو چیزیں قابلِ تقسیم ہیں (یعنی اس کو تقسیم کرنے کے بعد ہر وارث اپنے حصہ سے نفع اٹھا سکتا ہے) تو ان کو تقسیم کردیا جائے، اور جو قابلِ تقسیم نہیں ہیں، ان کو فروخت کردیا جائے، اور رقم تمام ورثاء میں ان کے حصوں کے بقدر تقسیم کردی جائے، یا ورثاء میں سے کوئی ایک وارث متروکہ جائیداد کو اپنی طرف کرلے، اور باقی ورثاء کو ان کے حصوں کی رقم دے دے۔
لیکن اگر تمام ورثاء باہمی رضامندی سے مرحوم کی متروکہ جائیداد کو فروخت نہیں کرنا چاہتے اور نہ ہی کوئی وارث اس کو اپنی طرف کرنا چاہتاہے، تو اس صورت میں اختیار ہےکہ باہمی رضامندی سے یا تو ہر دکان و مکان (فلور) میں باری مقرر کریں کہ اتنے دن ایک وارث کے پاس یہ دکان یا مکان رہے گا اور اتنے دن دوسرے کے پاس، اور یا یہ ہے کہ دکانوں کو کرایہ پر دیدیں اور کرایہ کو تمام ورثاء ان کے حصوں کے بقدر تقسیم کرلیں اور بلڈنگ میں جو ورثاء رہ رہے ہیں وہ دیگر ورثاء کے ساتھ ان کے حصہ میں کرایہ داری کا معاملہ کرلیں، اور ہر ماہ ان کے حصے کا کرایہ ادا کریں یا کسی کو دکان اور کسی کو مکان حوالہ کریں۔
باقی مرحوم کی متروکہ جائیداد کی تقسیم (مالیت یا فروخت کرنے بعد حاصل شدہ رقم کے اعتبار سے) یہ ہے کہ سب سے پہلے مرحوم کے حقوقِ متقدمہ (یعنی تجہیز و تکفین) کا خرچہ نکالنے کے بعد، اگر مرحوم کے ذمہ قرض ہو، تو اسے ادا کرنے کے بعد، اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو، تو اسے بقیہ مال کے ایک تہائی سے ادا کرنے کے بعد، بقیہ مال کو کل 96 حصوں میں تقسیم کرکے، 12 حصے مرحوم کی بیوہ کو، 14 حصے مرحوم کے ہر ایک بیٹے کو، اور 7 حصے مرحوم کی ہر ایک بیٹی کو ملیں گے۔
صورتِ تقسیم یہ ہے:
مرحوم (سسر)۔۔۔۔96/8
بیوہ | بیٹا | بیٹا | بیٹا | بیٹی | بیٹی | بیٹی | بیٹی | بیٹی | بیٹی |
1 | 7 | ||||||||
12 | 14 | 14 | 14 | 7 | 7 | 7 | 7 | 7 | 7 |
یعنی فی صد کے اعتبار سے 12.5 فی صد مرحوم کی بیوہ کو، 14.583333 مرحوم کے ہر ایک بیٹے کو، اور 7.291666 مرحوم کی ہر ایک بیٹی کو ملے گا۔
قرآن کریم میں ارشادِخداوندی ہے:
(يُوصِيكُمْ اللَّهُ فِي أَوْلادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنثَيَيْنِ)(سورة النساء،الآية:11)
ترجمہ:”اللہ تعالی تم کو حکم دیتاہے تمہار ی اولاد کے باب میں ،لڑکے کاحصہ دولڑکیوں کے برابرہے۔“(از بیان القرآن للتھانویؒ)
شعب الایمان میں ہے:
"عن أبي حرة الرقاشي عن عمه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:لا يحل مال امرئ مسلم إلا بطيب نفس منه."
(كتاب الجهاد، قبض اليدعن الأموال المحرمة، ج:4، ص:387، ط:دارالكتب العلمية)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"و إن كانت دار وضيعة أو دار و حانوت قسم كل واحدة منهما على حدة لاختلاف الجنس كذا في الهداية و إذا كانت في التركة دار و حانوت الورثة كلهم كبار و تراضوا على أن يدفعوا الدار و الحانوت إلى واحد منهم عن جميع نصيبه من التركة جاز لأن عند أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - إنما لا يجمع نصيب واحد من الورثة بطريق الجبر من القاضي و أما عند التراضي فذلك جائز."
(كتاب القسمة، الباب الثاني في بيان كيفية القسمة، ج:5، ص:205، ط:مكتبه ماجديه، كوئته)
فتاوی شامی میں ہے:
"(وقسم) المال المشترك (بطلب أحدهم إن انتفع كل) بحصته (بعد القسمة وبطلب ذي الكثير إن لم ينتفع الآخر لقلة حصته) وفي الخانية: يقسم بطلب كل وعليه الفتوى، لكن المتون على الأول فعليها ا لمعول (وإن تضرر الكل لم يقسم إلا برضاهم) لئلا يعود على موضوعه بالنقض.في المجتبى: حانوت لهما يعملان فيه طلب أحدهما القسمة إن أمكن لكل أن يعمل فيه بعد القسمة ما كان يعمل فيه قبلها قسم وإلا لا...(قوله: وقسم المال المشترك) أي الذي تجري فيه القسمة جبرا بأن كان من جنس واحد....(قوله: وبطلب ذي الكثير) أي إن انتفع بحصته وأطلقه لعلمه من المقام، ومفهومه أنه لا يقسم بطلب ذي القليل الذي لا ينتفع إذا أبى المنتفع. ووجهه كما في الهداية أن الأول منتفع فاعتبر طلبه والثاني متعنت فلم يعتبر اهـ ولذا لا يقسم القاضي بينهم إن تضرر الكل وإن طلبوا كما في النهاية، وحينئذ فيأمر القاضي بالمهايأة كما سيذكره الشارح....(قوله: فعليها المعول) وصرح في الهداية وشروحها بأنه الأصح، زاد في الدرر وعليه الفتوى."
(في بداية كتاب القسمة، ج:6، ص:260، ط:سعيد)
وفيه أيضاً:
"دار أو حانوت بين اثنين لا يمكن قسمتها تشاجرا فيه فقال أحدهما لا أكري ولا أنتفع، وقال الآخر أريد ذلك أمر القاضي بالمهايأة، ثم يقال لمن لا يريد الانتفاع إن شئت فانتفع، وإن شئت فأغلق الباب."
(في بداية كتاب القسمة، ج:6، ص:261، ط:سعيد)
تحفۃ الفقہاء میں ہے:
"الشركة الأملاك على ضربين أحدهما ما كان بفعلهما مثل أن يشتريا أو يوهب لهما أو يوصى لهما فيقبلا، والآخر بغير فعلهما وهو أن يرثا، والحكم في الفصلين واحد وهو أن الملك مشترك بينهما وكل واحد منهما في نصيب شريكه كالأجنبي لا يجوز له التصرف فيه إلا بإذنه."
(في بداية كتاب الشركة، ج:3، ص:5، ط:دار الكتب العلمية)
مجلۃ الاحکام میں ہے:
"إذا طلب أحد الشريكين القسمة وامتنع الآخر فيقسمه القاضي جبرا إن كان المال المشترك قابلا للقسمة ."
(كتاب الشركات، فصل في بيان شرائط القسمة، ص:218، ط:كارخانه تجارت كتب، كراتشي)
السراجی فی المیراث میں ہے:
"وأما لبنات الصلب فأحوال ثلاث:النصف للواحدة،والثلثان للاثنتين فصاعدا،ومع الابن للذكرمثل حظ الأنثيين وهويعصبهن."
(فصل:في النساء،ص:33/32،ط:مکتبة البشریٰ -باکستان)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144607102697
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن