ہماری بہن کا 2010ء میں انتقال ہوا، بہن غیر شادی شدہ تھی، پسماندگان میں والدہ، تین بھائی تھے، والد صاحب کا 2009ء میں انتقال ہو چکا تھا۔
بہن کے بعد 2014ء میں والدہ کا بھی انتقال ہوگیا، ورثاء میں صرف تین بیٹے تھے، والدہ کے والدین کا والدہ کی حیات ہی میں انتقال ہو چکا تھا۔
پھر ہمارے بڑے بھائی کا 2021ء میں انتقال ہوا، ورثاء میں ایک بیوہ، تین بیٹیاں اور دو بھائی ہیں۔
اب عرض یہ ہے کہ جس گھر میں ہم لوگ رہتے ہیں، وہ ہمارے مرحومہ بہن کی ملکیت ہے، جو خود انہوں نے خریدا تھا، اور اس گھر کی مالیت دو کروڑ روپے ہے، اب ہم اس گھر کو بہن کے شرعی ورثاء میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں، اس سلسلے میں راہ نمائی چاہیے کہ ہر ایک وارث کو کتنا حصہ ملے گا؟
صورتِ مسئولہ میں مرحومہ بہن کا ترکہ تقسیم کرنے کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ کل ترکہ سے مرحومہ کے حقوقِ متقدمہ (کفن دفن کے اخراجات) نکالنے کے بعد، اگر مرحومہ کے ذمہ کوئی قرضہ ہو تو وہ ادا کرنے کے بعد، اگر مرحومہ نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو باقی ترکہ کے ایک تہائی سے نافذ کرنے کے بعد باقی ترکہ (منقولہ وغیر منقولہ) کے کل 432 حصے کرکے 159 حصے ہر ایک زندہ بھائی کو، 18 حصے مرحوم بھائی کی بیوہ کو اور 32، 32 حصے مرحوم بھائی کی ہر ایک بیٹی کو ملیں گے، صورتِ تقسیم یہ ہے:
مرحومین(بہن و والدہ):3/ 432
بھائی | بھائی | بھائی |
1 | 1 | 1 |
فوت شدہ | 144 | 144 |
میت(بھائی):24 /144۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مف:1
بیوہ | بیٹی | بیٹی | بیٹی | بھائی | بھائی |
3 | 16 | 5 | |||
18 | 32 | 32 | 32 | 15 | 15 |
فی صد کے اعتبار سے کل ترکہ (منقولہ وغیر منقولہ یا اس کی مالیت) میں سے 36.805 فی صد ہر ایک زندہ بھائی کو، 4.166 فی صد مرحوم بھائی کی بیوہ کو اور 7.407 فی صد مرحوم بھائی کی ہر ایک بیٹی کو ملے گا۔
یعنی 2کروڑ روپے میں سے 73,61,111.11 روپے ہر ایک زندہ بھائی کو، 8,33,333.33 روپے مرحوم بھائی کی بیوہ کو اور 14,81,481.48 روپے مرحوم بھائی کی ہر ایک بیٹی کو ملیں گے۔
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144606101033
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن