بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

ترکہ کی تقسیم/ نومولود بچے کے خرچہ کا حکم


سوال

1۔ایک عورت کا انتقال ہوا ہے،اس کے ترکہ میں موجود سامان اور سونا وغیرہ کا کیا حکم ہے؟اس کے ورثاء میں ایک بیٹا ہے جو کہ ابھی پیدا ہوا ہےیعنی نومولود ہے،والدین،شوہر،پانچ بھائی اور پانچ بہنیں ہیں۔

2۔نومولود بچہ اپنی خالہ کے پاس ہے،اس کے خرچہ کا کیا حکم ہے؟بچے کے والد کا بظاہر کمانے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے،جس سے اس بچہ کا خرچہ اٹھایا جاسکے،آیا اس ترکہ میں سے سامان کو بیچ کر مذکورہ بچہ کا خرچہ اٹھایا جاسکتا ہے یا نہیں؟

جواب

1۔صورتِ مسئولہ میں مرحومہ کے ترکہ منقولہ وغیر منقولہ سب  کو اس کے ورثائے شرعی میں تقسیم کیا جائے گا،جس کا شرعی طریقہ یہ  ہے کہ سب سے پہلے   اس  کے حقوقِ متقدّمہ یعنی اگر اس کے ذمہ کوئی قرض ہو تو اسے کل ترکہ سے ادا کرنے کے بعداور اگر اس نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو اسے باقی ترکہ کے ایک تہائی  میں سے نافذ کرنے کے بعد،باقی  کل ترکہ منقولہ وغیر منقولہ  کو 12 حصوں میں تقسیم کرکے،مرحومہ کے شوہر کو تین حصے،اس کے والدین میں سے ہر ایک کو دو،دو حصےاوراس کے نومولود بیٹے کو پانچ حصے ملیں گے۔نیز مرحومہ کے بھائی بہنوں کا میراث میں کوئی حصہ نہیں ہوگا۔

میت:12

شوہروالدوالدہبیٹا
3225

یعنی 100 فیصد میں سےمرحومہ کے شوہر کو25فیصد،اس کے والدین میں سے ہر ایک کو16.66فیصد اوراس کے نومولودبیٹے کو41.66فیصد ملے گا۔

2۔واضح رہے کہ ماں کے انتقال کے بعد بچہ جب تک  سات سال کا نہ ہوجائے، اس کی پرورش کا حق ترتیب وار  سب سے پہلے نانی، اس کے بعد دادی، پھر حقیقی بہن، اس کے بعد  ماں شریک بہن، پھر باپ  شریک بہن، اس  کے بعد حقیقی بہن کی بیٹی، اس کے بعد  ماں شریک بہن کی بیٹی  اس کے بعد حقیقی خالہ کو حاصل ہوتاہے،لہذا صورتِ مسئولہ میں  اگر نومولود  بچہ کا ان میں سے کوئی بھی رشتہ دار نہ ہو تو خالہ کا اس مذکورہ بچہ کو اپنی پرورش میں لینا درست ہے،البتہ مذکورہ مدت کے بعد باپ کو حق حاصل ہوگا کہ اپنے پاس رکھےاور اس کی تعلیم و تربیت کرے۔

نیزبچہ کی پیدائش سے لے کر اس کے بالغ ہو کرکمانے تک نان نفقہ خرچہ وغیرہ سب باپ کے ذمہ ہوتا ہے،البتہ اگر بچہ کا اپنا ذاتی مال موجود ہو تو نفقہ پہلے اس کے مال میں سے ہوگا، اگر اس کے پاس مال نہ ہو تو  پھر باپ کے ذمہ لازم ہوتا ہے،لہذا صورتِ مسئولہ میں مرحومہ  کے ترکہ میں سےنومولود بچہ کو ملنے والا حصہ چوں کہ اس کا اپنا ذاتی مال ہے،تو اس بچہ کا خرچہ پہلے  اس کےاپنے  مال میں سے اٹھایا جائے گا ،جب وہ ختم ہوجائے پھر باپ کے ذمہ بہرحال لازم ہوگا اگر چہ تنگ د ست ہی کیوں نہ ہو۔

1۔فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ويسقط الإخوة والأخوات بالابن وابن الابن وإن سفل وبالأب بالاتفاق."

(کتاب الفرائض،الباب الثاني في ذوي الفروض،ج:6،ص:450،ط:دارالفکر بیروت)

وفیه أیضا:

"أحق الناس بحضانة الصغير حال قيام النكاح أو بعد الفرقة الأم۔۔۔وإن لم يكن له أم تستحق الحضانة بأن كانت غير أهل للحضانة أو متزوجة بغير محرم أو ماتت فأم الأم أولى من كل واحدة، وإن علت، فإن لم يكن للأم أم فأم الأب أولى ممن سواها، وإن علت كذا في فتح القدير۔۔۔فإن ماتت أو تزوجت فالأخت لأب وأم، فإن ماتت أو تزوجت فالأخت لأم، فإن ماتت أوتزوجت فبنت الأخت لأب وأم، فإن ماتت أو تزوجت فبنت الأخت لأم لا تختلف الرواية في ترتيب هذه الجملة إنما اختلفت الروايات بعد هذا في الخالة والأخت لأب ففي رواية كتاب النكاح: الأخت لأب أولى من الخالة وفي رواية كتاب الطلاق: الخالة أولى."

(کتاب الطلاق،الباب السادس عشر في الحضانة،ج:1،ص:541،ط:دارالفکر بیروت)

وفیه أیضا:

"نفقة الأولاد الصغار على الأب لايشاركه فيها أحد، كذا في الجوهرة النيرة".۔۔۔۔

"و بعد الفطام يفرض القاضي نفقة الصغار على قدر طاقة الأب و تدفع إلى الأم حتي تنفق علي الأولاد، فإن لم تكن الأم ثقةً تدفع إلى غيرها لينفق على الولد۔۔۔رجل معسر له ولد صغير إن كان الرجل يقدر على الكسب يجب عليه أن يكتسب وينفق على ولده كذا في فتاوى قاضي خان."

(‌‌الباب السابع عشر في النفقات،الفصل الرابع في نفقة الأولاد، ج:1،ص:561/560، ط:دارالفکر بیروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وتجب) النفقة بأنواعها على الحر (لطفله) يعم الأنثى والجمع (الفقير) الحر ... (وكذا) تجب (لولده الكبير العاجز عن الكسب) كأنثى مطلقاً وزمن.

(قوله: لطفله) هو الولد حين يسقط من بطن أمه إلى أن يحتلم، ويقال: جارية، طفل، وطفلة، كذا في المغرب. وقيل: أول ما يولد صبي ثم طفل ح عن النهر (قوله: يعم الأنثى والجمع) أي يطلق على الأنثى كما علمته، وعلى الجمع كما في قوله تعالى: {أو الطفل الذين لم يظهروا} [النور: 31] فهو مما يستوي فيه المفرد والجمع كالجنب والفلك والإمام - {واجعلنا للمتقين إماما} [الفرقان: 74]- ولاينافيه جمعه على أطفال أيضاً كما جمع إمام على أئمة أيضاً فافهم(قوله الفقير) أي إن لم يبلغ حد الكسب، فإن بلغه كان للأب أن يؤجره أو يدفعه في حرفة ليكتسب وينفق عليه من كسبه لو كان ذكرا، بخلاف الأنثى كما قدمه في الحضانة عن المؤيدية.... (قوله: كأنثى مطلقاً) أي ولو لم يكن بها زمانة تمنعها عن الكسب فمجرد الأنوثة عجز إلا إذا كان لها زوج فنفقتها عليه ما دامت زوجة .... (قوله: وزمن) أي من به مرض مزمن، والمراد هنا من به ما يمنعه عن الكسب كعمى وشلل، ولو قدر على اكتساب ما لايكفيه فعلى أبيه تكميل الكفاية."

(کتاب الطلاق،باب النفقة،ج:3،ص:614/612،ط:سعید)

البحر الرائق میں ہے:

"(قوله ولطفله الفقير) أي تجب النفقة والسكنى والكسوة لولده الصغير الفقير لقوله تعالى {وعلى المولود له رزقهن وكسوتهن بالمعروف} [البقرة: 233] فهي عبارة في إيجاب نفقة المنكوحات إشارة إلى أن نفقة الأولاد على الأب وأن النسب له وأنه لا يعاقب بسببه فلا يقتل قصاصا بقتله ولا يحد بوطء جاريته وإن علم بحرمتها وأن الأب ينفرد بتحمل نفقة الولد ولا يشاركه فيها أحد وأن الولد إذا كان غنيا والأب محتاجا لم يشارك الولد أحد في نفقة الوالد ذكره المصنف في شرح المنار قيد بالطفل وهو الصبي حين يسقط من البطن إلى أن يحتلم، ويقال جارية طفل وطفلة، كذا في المغرب وبه علم أن الطفل يقع على الذكر والأنثى؛ ولذا عبر به؛ لأن البالغ لا تجب نفقته على أبيه إلا بشروط نذكرها وقيد بالفقير؛ لأن الصغير إذا كان له مال فنفقته في ماله ولا بد من التقييد بالحرية لما أسلفناه أن الولد المملوك نفقته على مالكه لا على أبيه حرا كان الأب أو عبدا"

(کتاب الطلاق،باب النفقة،النفقة والسكنى والكسوة لولده الصغير الفقير،ج:4،ص:218،ط:دار الكتاب الإسلامي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144601101798

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں