بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 ذو الحجة 1445ھ 01 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

تراویح میں دس سورتیں پڑھنا


سوال

 ہمارے  ہاں مسجد میں تراویح میں قرآن پاک مکمل نہیں کرتے،  بلکہ تراویح میں آخری 10 سورتیں پڑھائی جاتی  ہیں،  اس طرح کرنا ٹھیک ہے؟

جواب

تراویح کی نماز میں قرآن مجید کا ختم کرنا سنتِ مؤکدہ ہے، اگر کسی مسجد والے تراویح  کی نماز  میں  محض  دس سورتیں پڑھتے ہوں  اور ختمِ قرآن کا اہتمام نہ کرتے ہوں تو وہ  سنت کے ثواب سے محروم ہوں گے، کوشش کرنی چاہیے کہ تراویح میں ختم قرآن کا اہتمام کریں۔

آپ کے مسائل اور ان کا حل میں ہے:

"تراویح پڑھنا مستقل سنت ہے، اور تراویح میں پورا قرآنِ کریم سننا الگ سنت ہے، جو شخص ان میں سے کسی ایک سنت کا تارک ہوگا وہ گناہ گار ہوگا۔"

فتاوی رحیمیہ میں ہے:

"تراویح میں ایک مرتبہ ختم قرآن مجید سنتِ  مؤکدہ ہے :

(سوال ۲۴۴)ماہ رمضان میں تراویح میں ایک قرآن ختم کرنا فقہاء نے سنت لکھا ہے اس سے کون سی سنت مراد ہے مؤکدہ یا غیر مؤکدہ ؟ مفصل مدلل جواب مرحمت فرمائیں بینوا توجروا۔

(الجواب) وباللہ التوفیق:

صحیح مذہب اور قول اصح یہ ہے کہ تراویح میں ایک قرآن ختم کرنا سنتِ مؤکدہ ہے ۔قوم کی کاہلی کی و جہ سے اسے ترک نہ کیا جائے، اور دوختم کرنے میں فضیلت ہے اور تین ختم کرنا افضل ہے، جہاں فقہاء نے ایک ختم کو سنت لکھاہے اس سے ظاہراً سنتِ مؤکدہ مراد ہے ۔الخ۔ (امداد الفتاویٰ ج۱ ص۳۰۰) ....... 

خلاصہ یہ کہ تراویح میں ایک ختم تاکیدی سنت ہے اور اہلِ سنت کا شعار بھی ہے ۔روافض وغیرہ اس سے محروم ہیں اور حفظ قرآن نیز بقاءِ قرآن کا بڑا ذریعہ ہے، اگر خدا نخواسۃ یہ شرعی رسم ختم ہوگئی تو حفظِ قرآن کا سلسلہ بھی ختم ہوجائے گا ۔ اور حفاظ عتقاء ہوجائیں گے؛ لہذاکسی بھی صورت میں اس کو سنت کو قائم رکھنے کی ضرورت ہے ۔ اس سنت پر خیرا لقرون اور صحابہ کے مبارک زمانہ سے آج تک عمل رہا ہے اور چاروں مذہب کے علماء فقہاء مشائخ اور محدثین رحمہم اللہ اس پر دل وجان سے عامل اور متفق ہیں ۔"

فتاوی شامی   میں ہے: 

"(والختم) مرةً سنةٌ ومرتين فضيلةٌ وثلاثاً أفضل. (ولايترك) الختم (لكسل القوم)، لكن في الاختيار: الأفضل في زماننا قدر ما لايثقل عليهم، وأقره المصنف وغيره. وفي المجتبى عن الإمام: لو قرأ ثلاثاً قصاراً أو آيةً طويلةً في الفرض فقد أحسن ولم يسئ، فما ظنك بالتراويح؟ وفي فضائل رمضان للزاهدي: أفتى أبو الفضل الكرماني والوبري أنه إذا قرأ في التراويح الفاتحة وآيةً أو آيتين لايكره، ومن لم يكن عالماً بأهل زمانه فهو جاهل.

(قوله: الأفضل في زماننا إلخ)؛ لأن تكثير الجمع أفضل من تطويل القراءة، حلية عن المحيط. وفيه إشعار بأن هذا مبني على اختلاف الزمان، فقد تتغير الأحكام لاختلاف الزمان في كثير من المسائل على حسب المصالح، ولهذا قال في البحر: فالحاصل أن المصحح في المذهب أن الختم سنة، لكن لا يلزم منه عدم تركه إذا لزم منه تنفير القوم وتعطيل كثير من المساجد خصوصاً في زماننا، فالظاهر اختيار الأخف على القوم.
(قوله: وفي المجتبى إلخ) عبارته على ما في البحر: والمتأخرون كانوا يفتون في زماننا بثلاث آيات قصار أو آية طويلة حتى لا يمل القوم ولا يلزم تعطيلها، فإن الحسن روى عن الإمام أنه إن قرأ في المكتوبة بعد الفاتحة ثلاث آيات فقد أحسن ولم يسئ، هذا في المكتوبة فما ظنك في غيرها؟ اهـ".

(2/ 46، 47 باب الوتر والنوافل، ط: سعید)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144209200158

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں