میں یہاں ایک مسجد میں عرصہ نو سال سے تراویح میں قرآن پاک سنارہا ہوں، ختم قرآن کے موقع پر مسجد کے بانی و متولی کچھ رقم دیتے ہیں، اسی طرح نمازی حضرات بھی کچھ رقم دیتے ہیں، مسجد کے متولی جو رقم دیتے ہیں وہ میں نے ان سے متعین نہیں کی ، وہ اپنی صواب دید پر جتنی چاہیں دے دیتے ہیں، کبھی کم ہوتی ہے اور کبھی زیادہ، ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ میں نے کبھی آپ کے لیے (یعنی میرے لیے) لوگوں سے آپ کو رقم دینے کے لیے چندے کا مطالبہ نہیں کیا، اسی طرح ایک نمازی ساتھی ہر سال ختم قرآن پر پہننے کے لیے جوڑا، رومال ، ٹوپی، جوڑے کی سلائی اور کچھ دیگر سامان جو ان کا دل چاہے دیتے رہتے ہیں، کیا میرے لیے یہ سب کچھ لینا حلال ہے ؟ اگر حلال نہیں تو اب تک جو کچھ میں نے لیا ہے اس کا کیا حکم ہے ؟ اور آئندہ ایسی کیا تد بیر اختیار کروں کہ اس رقم کے لینے سے بچ جاؤں ؟
اسی طرح ختم قرآن کے موقع پر مٹھائی کا انتظام بھی ہوتا ہے ، اس کا کیا حکم ہے ؟ ہم چند دوست ایک دوسرے کو اپنے اپنے ختم قرآن پر مدعو کرتے ہیں، کیا ایسی دعوت دینا اور ایسی دعوت پر جانا جائز ہے ؟ اور وہاں جا کر مٹھائی کھانا کیسا ہے ؟
صورتِ مسئولہ میں تراویح پڑھانے کی اگر کوئی اجرت طے نہ کی گئی ہو اور سائل کی طرف سے مطالبہ بھی نہ ہو اور نہ دینے پر شکایت بھی نہ ہو، اسی طرح وہاں ختم قرآن پر اجرت کے لین دین کا رواج نہ ہو اور نہ ہی اس کے لیے چندہ کیا جاتا ہو تو ایسی صورت میں ختم قرآن کے موقع پر مسجد کا متولّی یا کوئی نمازی اپنی خوشی سے سے سائل کو کچھ ہدیہ دے دے تو اس کا لینا جائز ہوگا۔
باقی تراویح ختم ہونے پر مٹھائی تقسیم کرنا ضروری نہیں ہے، اگر ختم پر مٹھائی تقسیم کرنے کے لیے لوگوں کو چندہ دینے پر مجبور کیا جاتا ہو اور بچوں کا رش اور شوروغل ہوتا ہو، مسجد کا فرش خراب ہوتا ہو یا اسے لازم اور ضروری سمجھا جاتا ہو تو اس کا ترک کردینا ضروری ہے، اور اگر یہ مفاسد نہ پائے جائیں، بلکہ کوئی اپنی خوشی سے، چندہ کیے بغیر تقسیم کردے یا امام کے لیے لے آئے تو اس میں مضائقہ نہیں ہے، ایسی صورت میں بہتر یہ ہے کہ خشک چیز تقسیم کی جائے؛ تاکہ مسجد کا فرش وغیرہ خراب نہ ہو اور شور وغل کا اندیشہ ہو تو مسجد کے اندر تقسیم کرنے کے بجائے دروازے پر تقسیم کردیا جائے۔
نیز ختم قرآن کا موقع دعا کی قبولیت کا موقع ہوتا ہے، لہذا دعا میں شرکت کے لیے اگر اپنے دوست احباب کو مدعو کرلیا جائے تو اس میں مضائقہ نہیں ہے۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
"والآخذ والمعطي آثمان. فالحاصل أن ما شاع في زماننا من قراءة الأجزاء بالأجرة لا يجوز؛ لأن فيه الأمر بالقراءة وإعطاء الثواب للآمر والقراءة لأجل المال؛ فإذا لم يكن للقارئ ثواب لعدم النية الصحيحة فأين يصل الثواب إلى المستأجر ولولا الأجرة ما قرأ أحد لأحد في هذا الزمان بل جعلوا القرآن العظيم مكسبا ووسيلة إلى جمع الدنيا - إنا لله وإنا إليه راجعون - اهـ. وقد اغتر بما في الجوهرة صاحب البحر في كتاب الوقف وتبعه الشارح في كتاب الوصايا حيث يشعر كلامها بجواز الاستئجار على كل الطاعات ومنها القراءة. وقد رده الشيخ خير الدين الرملي في حاشية البحر في كتاب الوقف حيث قال: أقول المفتى به جواز الأخذ استحسانا على تعليم القرآن لا على القراءة المجردة كما صرح به في التتارخانية حيث قال: لا معنى لهذه الوصية ولصلة القارئ بقراءته؛ لأن هذا بمنزلة الأجرة والإجارة في ذلك باطلة وهي بدعة ولم يفعلها أحد من الخلفاء."
(کتاب الإجارۃ، باب الإجارۃ الفاسدۃ، مطلب في الاستئجار على الطاعات،6/ 56، ط: سعید)
فتاوی رشیدیہ مبوب بطرزِ جدید میں ہے:
"سوال: جو شخص قرآن نمازِ تراویح میں سنائے، بغیر ٹھہرائے اور مانگے اگر آدمی کچھ اُس کو بطور چندہ کے دیویں، یہ لینا اس کو جائز ہے یا نہیں ہے؟ اور دینے والے کو یہ دینا درست ہے یا نہیں؟
جواب: اگر حافظ کے دل میں لینے کا خیال نہ تھا اور پھر کسی نے دیا تو درست ہے؛ اور جو حسبِ رواج و عرف دیتے ہیں، حافظ بھی لینے کے خیال سے پڑھتا ہے، اگرچہ زبان سے کچھ نہیں کہتا؛ تو درست نہیں فقط واللہ اعلم۔"
(کتاب الصلوۃ، ص393، ط: عالمی مجلس ِتحفظ ِاسلام، کراچی)
کفایت المفتی میں ہے:
"سوال:تراویح میں قرآن شریف سنانےوالےحافظ کو اجرت دینا جائز ہےیا ناجائز؟اگرجائز ہےتو تعین کےساتھ یا بلاتعین؟
جواب:بلاتعیین کچھ دے دیاجائےاورنہ دینے پرکوئی شکایت بھی نہ ہوتو یہ صورت اجرت سےخارج اورحدِجوازمیں داخل ہوسکتی ہے۔"
(کتاب الصلاۃ،396/3،ط:دارالاشاعت)
فتاوی رحیمیہ میں ہے:
’’سوال : 1۔ رمضان المبارک میں تراویح میں ختم قرآن ہوتا ہے اس دن شیرینی تقسیم کرنا کیسا ہے؟ بینوا تؤجروا۔
2۔ شیرینی صرف ایک شخص کی طرف سے تقسیم ہوتی ہے۔ چندہ نہیں کرتے تو یہ درست ہے یا نہیں؟
3۔شیرینی جماعت خانہ میں تقسیم کرسکتے ہیں یا صحن میں کی جائے؟بینوا تؤجروا۔
الجواب:1۔ضروری نہیں ہے، لوگوں نے اسے ضروری سمجھ لیا ہے اور بڑی پابندی کے ساتھ عمل کیا جاتا ہے، لوگوں کو چندہ دینے پر مجبور کیا جاتا ہے، مسجدوں میں بچوں کا اجتماع اور شور و غل وغیرہ خرابیوں کے پیشِ نظر اس دستور کو موقوف کردینا ہی بہتر ہے۔
2۔امامِ تراویح یا اور کوئی ختمِ قرآن کی خوشی میں کبھی کبھی شیرینی تقسیم کرے اور مسجد کی حرمت کا لحاظ رکھا جائے تو درست ہے۔
3۔مسجد کا فرش خراب نہ ہو، خشک چیز ہو اور مسجد کی بے حرمتی لازم نہ آئے تو درست ہے، بہتر یہ ہے کہ دروازے پر تقسیم کردیا جائے۔فقط واللہ اعلم بالصواب۔‘‘
(مسائلِ تراویح، ج:6، ص:243-244، ط:دار الاشاعت)
المعجم الكبير للطبراني میں ہے:
"عن ثابت، «أن أنس بن مالك، كان إذا ختم القرآن جمع أهله وولده، فدعا لهم»."
(صفة أنس بن مالك وهيأته رضي الله عنه، 1/ 242، ط:مكتبة ابن تيمية - القاهرة)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144607101223
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن