تراویح پر اجرت لینا کیسا ہے؟
صورتِ مسئولہ میں تراویح پڑھانے کی اُجرت کا لینا دینا شرعاً جائز نہیں، اُجرت کا لین دین کرنے والے دونوں گناہ گار ہوں گے اوراجرت پر پڑھائی گئی تراویح کاثواب بھی نہیں ملے گا۔البتہ اگر حافظ کو رمضان المبارک کے لیے نائب امام بنادیا جائے اور اس کے ذمہ ایک یا دو نمازیں سپرد کردی جائیں اور اس خدمت کے عوض تنخواہ مقرر کردی جائے، تو اس کے لیے تنخواہ لینا جائز ہوگا۔
اگر کوئی بلاتعیین کچھ دے دیاجائےاورنہ دینے پرکوئی شکایت بھی نہ ہو اور نہ وہاں بطورِ اجرت لینے دینے کا عرف ورواج ہوتو اس صورت میں اگر کوئی امام تراویح کو کچھ ہدیہ دے دے، اجرت لینے دینے میں داخل نہیں ہوگی۔
کفایت المفتی میں ہے:
"متأخرین فقہائے حنفیہ نے امامت کی اجرت لینے دینے کے جواز کا فتویٰ دیا ہے، پس اگر امام مذکور سے معاملہ امامت نماز سے متعلق ہوا تھا تو درست تھا، لیکن قرآنِ مجید تراویح میں سنانے کی اجرت لینا دینا جائز نہیں ہے، اگر معاملہ قرآن مجید سنانے کے لیے ہوا تھا تو ناجائز تھا ۔"
(کتاب الصلاۃ، ج:3، ص:410 ،ط:دارالاشاعت)
امداد الاحکام میں ہے:
"جو شخص مسجد کا امام معین نہیں اس کو محض تراویح سنانے پر کچھ روپیہ لینا ناجائز ہے۔ اور اگر امام مسجد ہے تو اس کو محض تنخواہ معینہ کا لینا جائز ہے ، تراریح سناکر اس سے زیادہ لینا ناجائز ہے خواہ کسی غرض کے لیے لیا جائے۔ رہا یہ عذر کہ لوگ محض خوشی سے ہدیہ دیتے ہیں، تراویح کا عوض نہیں دیتے، سراسرغلط تاویل ہے۔ اگر ہدیہ طیب نفس ہے عوض تراویح نہیں تو اور ایام میں کیوں نہیں دیتے ؟ اوربدون تراویح سنے کیوں نہیں دیتے ؟ "
(کتاب الاجارۃ، ج:3، ص:534، ط:مکتبۃ دارالعلوم کراچی)
فتاوی محمودیہ میں ہے:
"تراویح میں قرآن پاک سنانے کی اجرت لینا جائز نہیں، اگر پہلے سے باقاعدہ اجرت طے نہ کی جاۓ ،لیکن دستور کے موافق امام کے ذہن میں بھی ہے کہ مجھے ملے گا اور نمازیوں کے ذہن میں بھی ہے کہ امام کو دیا جاۓ گا تو "المعروف كالمشروط" کے تحت ہی صورت بھی طے کرنے کے حکم میں ہو کر نا جا ئز ہے ۔"
(کتاب الاجارۃ، باب الاستیجار علی الطاعات، ج:17، ص:74، ط:ادارۃ الفاروق)
فتاوی شامی میں ہے:
'' فالحاصل: أن ما شاع في زماننا من قراءة الأجزاء بالأجرة لا يجوز؛ لأن فيه الأمر بالقراءة وإعطاء الثواب للآمر والقراءة لأجل المال، فإذا لم يكن للقارىء ثواب لعدم النية الصحيحة فأين يصل الثواب إلى المستأجر!! ولولا الأجرة ما قرأ أحد لأحد في هذا الزمان، بل جعلوا القرآن العظيم مكسباً ووسيلةً إلى جمع الدنيا، إنا لله وإنا إليه راجعون! اہ.''
(کتاب الإجارۃ، باب الإجارۃ الفاسدہ، ج:6، ص:56، ط:سعید)
البنایہ شرح الھدایہ میں ہے:
"والأصل أن كل طاعة يختص بها المسلم لا يجوز الإستئجار عليه عندنا، وعند الشافعي يصح في كل ما لا يتعين على الأجير؛ لأنه استئجار على عمل معلوم غير متعين عليه فيجوز. ولنا قوله عليه الصلاة والسلام: اقرءوا القرآن ولا تأكلوا به ... ولا يجوز أن يستأجر رجل رجلا أن يعلم ولدا القرآن والفقه والفرائض، أو يؤمهم في رمضان."
(كتاب الإجارة، باب الإجارة الفاسدة، فصل الإستئجار على الطاعات، ج: 10، ص: 278، ط: دار الكتب العلمية)
فقط والله تعالى اعلم
فتوی نمبر : 144609100762
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن