تراویح کے ختم میں قاری صاحب کو تراویح پڑھانے کے عوض تنخواہ دینا کیسا ہے؟
بصورتِ مسئولہ کسی بھی شخص کا تنخواہ کے عوض تراویح پڑھانا شریعت کی رُو سے ناجائز ہے، اور اِس طرح اگر تنخواہ کے لین دین کا معاملہ طے کر کے تراویح پڑھائی جائے تو اُس کا ثواب بھی نہیں ملتا،لہذااِس سے اجتناب کیا جائے۔
مزید تفصیل کے لیے دارالافتاء جامعہ بنوری ٹاؤن کی ویب سائٹ پر موجود مذکورہ فتویٰ ملاحظہ ہو:
مفتی اعظم ہند و پاک حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ صاحب فرماتے ہیں ہے:
" قرآنِ مجید تراویح میں سنانے کی اجرت لینا دینا جائز نہیں ہے۔"
(کفایت المفتی،کتاب الصلاۃ، ج:3، ص:410 ،ط:دارالاشاعت)
فتاوی شامی میں ہے:
''فالحاصل: أن ما شاع في زماننا من قراءة الأجزاء بالأجرة لا يجوز؛ لأن فيه الأمر بالقراءة وإعطاء الثواب للآمر والقراءة لأجل المال، فإذا لم يكن للقارىء ثواب لعدم النية الصحيحة فأين يصل الثواب إلى المستأجر!! ولولا الأجرة ما قرأ أحد لأحد في هذا الزمان، بل جعلوا القرآن العظيم مكسباً ووسيلةً إلى جمع الدنيا، إنا لله وإنا إليه راجعون! اہ.''
(کتاب الإجارۃ، باب الإجارۃ الفاسدہ، ج:6، ص:56، ط:سعید)
فقط والله تعالى اعلم بالصواب
فتوی نمبر : 144609101986
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن