ایک شخص کے حصے میں تین کنال زمین تھی، ایک کنال زمین کی قیمت دو لاکھ روپے ہے، اس زمین سے جانوروں کے استعمال کے لیے گھاس اور سردیوں میں اپنے استعمال کے لیے لکڑیاں استعمال کرتے ہیں، اس زمین کی تقسیم کیسے ہو گی؟ فروخت کر کے رقم تقسیم نہیں کرنی۔
ایک گھر جس میں وہ خود مقیم تھے وہ 6 مرلہ پر واقع ہے اور گھر کی قیمت 65 لاکھ ہے اور اس گھر کا ماہانہ کرایہ آٹھ ہزار ملتا ہے، یہ فروخت کر کے تقسیم نہیں کرنا ہے، کرایہ پر ہی رہنے دینا ہے۔
مالکِ زمین فوت ہو چکا ہے، اب اس کے ورثاء میں بیوہ، دو بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں، اب اس مال کو ان میں تقسیم کرنے کے بعد ہر ایک کے حصہ میں کتنا مال آئے گا؟ اور تقسیم کے بعد ان کے حصے میں جو مال آئے گا اس کی وجہ سے وہ زکوۃ دینے والے بن جائیں گے؟
ان میں سے کسی کے ذمہ زکوۃ دینا یا لینے کی کیا صورت ہو گی؟ اور اس حصے کی وجہ سے ان میں سے قربانی کس پر لازم ہو گی؟
اولاً مرحوم کے ترکہ سے ان کی تجہیز و تکفین کے متوسط اخراجات اور قرض ہونے کی صورت میں کل ترکہ سے قرض ادا کیا جائے گا، پھر اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو اس کو باقی مال کے ایک تہائی ترکہ میں سے نافذ کیا جائے گا، اس کے بعد مرحوم کے کل ترکہ منقولہ و غیر منقولہ کو 8 حصوں میں تقسیم کر کے بیوہ کو ایک حصہ، ہر ایک بیٹے کو دو حصے اور ہر ایک بیٹی کو ایک حصہ ملے گا۔
صورتِ تقسیم یہ ہے:
بیوہ | بیٹا | بیٹا | بیٹی | بیٹی | بیٹی |
1 | 7 | ||||
1 | 2 | 2 | 1 | 1 | 1 |
یعنی: فیصد کے اعتبار سے 12.50 فیصد بیوہ کو، ہر ایک بیٹے کو 25 فیصد اور ہر ایک بیٹی کو 12.50 فیصد ملے گا۔
زکوۃ کے مستحق ہونے کا عمومی ضابطہ یہ ہے:
جس مسلمان کی ملکیت میں اس کی بنیادی ضرورت و استعمال ( یعنی رہنے کا مکان ، گھریلوبرتن ، کپڑے، سواری وغیرہ)سے زائد، نصاب کے بقدر (یعنی صرف سونا ہو تو ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی موجودہ قیمت کے برابر) مال یا کسی بھی قسم کا ضرورت سے زائد سامان موجود نہ ہو اور وہ ہاشمی (سید/ عباسی) نہ ہو، وہ زکاۃ کا مستحق ہے،اس کو زکاۃ دینا اور اس کے لیے ضرورت کے مطابق زکاۃ لینا جائز ہے۔
مسئلہ ہذا میں ترکہ کی تقسیم کے طریقہ میں ذکر کردہ فیصد کے اعتبار سے ہر وارث زمین اور مکان میں اپنے اپنے حصے کا مالک ہے، اب اگر یہ چیزیں ورثاء کی ضرورت سے زائد ہیں، یعنی کرایہ پر دیے ہوئے مکان کے کرایہ کے بغیر اور تین کنال کی زمین کے بغیر بھی گزر بسر ممکن ہو تو ایسی صورت میں یہ مکان اور زمین ضرورت سے زائد ہو گی اور اس کی وجہ سے ورثاء زکوۃ کے مستحق نہ رہیں گے۔
اور اگر یہ زمین و مکان ضرورت سے زائد نہ ہو، بلکہ اسی مکان کے کرایہ سے اور زمین کی اشیاء سے گزر بسر پورا ہوتا ہو، کرایہ بچتا بھی نہ ہو تو ایسی صورت میں یہ مکان و زمین ضرورت اصلیہ میں شامل ہوں گی اور اس کی وجہ سے ورثاء مستحق زکوۃ ہونے سے نہیں نکلیں گے، یعنی مستحق زکوٰۃ قرار پائیں گے بشرطیکہ یہ ورثاء سید، ہاشمی، عباسی، علوی جعفری نہ ہوں اگر اس کے علاوہ بھی نصاب کے بقدر مال نہ ہو تو مستحق زکوۃ کہلائیں گے۔
اگر بعض ورثاء کا گزر بسر اس مکان و زمین سے ہوتا ہو اور بعض کا اس مکان و زمین کے بغیر گزر بسر ہوتا ہو تو پہلی والے مستحق زکوۃ رہیں گے، دوسرے والے مستحق زکوۃ ہونے سے نکل جائیں گے۔
جس عاقل، بالغ، مقیم، مسلمان مرد یا عورت کی ملکیت میں قربانی کے ایام میں، ذمہ میں واجب الادا اخراجات منہا کرنے کے بعد ضرورت اور استعمال سےزائد اتنا مال یا سامان موجود ہو جس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر یا اس سے زائد ہو (خواہ ضرورت سے زائد مال نقدی ہو یا سونا چاندی ہو یا کسی اور شکل میں ہو، اسی طرح مالِ تجارت نہ بھی ہو) تو ایسے مرد وعورت پر قربانی واجب ہے۔
چاندی کے ریٹ اوپر نیچے ہوتے رہتے ہیں اس لیے بہتر یہ ہے کہ عید سے پہلے چاندی کا فی تولہ معلوم کر لیا جائے اور اس کو ساڑھے باون سے ضرب دے دیا جائے جو نتیجہ حاصل ہو وہی قربانی کا نصاب ہے اور اس قدر نقدی وغیرہ موجود ہونے کی صورت میں قربانی لازم ہو گی۔
صورتِ مسئولہ میں موروثہ مکان اور زمین کو قربانی کے نصاب میں شامل کرنے یا نہ کرنے کا مدار ضرورت پر ہے، جیسا گزشتہ سطور میں لکھا گیا۔
زکات کا نصاب ساڑھے سات تولہ سونا، یا ساڑھے باون تولہ چاندی، یا ساڑھے باون تولہ چاندی کے بقدرنقد رقم یامالِ تجارت ہے، اس نصاب پر جب قمری مہینوں کے اعتبار سے سال گزرجائے توزکات کی ادائیگی فرض ہوجاتی ہے۔
واضح ہوکہ ساڑھے سات تولہ سونے پر زکات کا مدار اس وقت ہے کہ جب ملکیت میں صرف سونا ہو، اس کے علاوہ کسی اور جنس میں سے کوئی مال پاس نہ، لیکن اگر سونے کے ساتھ ساتھ کچھ اور مالیت بھی ہےتو پھرزکات کی فرضیت کا مدار چاندی کے نصاب یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی پرہوگا۔ یعنی اگرکسی کے پاس ساڑھے تولہ سے کم سونا ہے اوراس کے علاوہ نقدرقم، چاندی یاسامان تجارت وغیرہ بالکل نہ ہوتو اس شخص پرزکات فرض نہیں ہوگی، لیکن ساڑھے سات تولہ سے کم سونے کے ساتھ ساتھ کسی کے پاس چاندی یا نقد رقم یاسامانِ تجارت موجود ہو تو پھراس کے لیے نصاب ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت ہے، اسی طرح کسی کے پاس سونا تو نہ ہو، لیکن مالِ تجارت اور نقدی دونوں ملاکر یا دونوں میں سے کوئی ایک اتنی مقدار میں ہو کہ اس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت تک پہنچ جائے تو بھی یہ صاحبِ نصاب شمار ہوگا ، لہٰذا اگر اس سونے اور باقی اشیاء (نقدی، مالِ تجارت، چاندی) کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے بقدر ہو تواس پرزکات فرض ہوگی۔
مذکورہ مکان اور زمین چوں کہ ورثاء میں سے کسی نے خود تجارت کی نیت سے نہیں خریدی اس لیے اس مکان اور زمین کو زکوۃ کے نصاب میں شامل نہیں کریں گے۔
نوٹ: زکوۃ کے مستحق ہونے اور قربانی کے لازم ہونے کے لیے صرف اسی مکان و زمین کو نہیں دیکھا جائے گا، بلکہ فرداً فرداً ہر وارث کی ذاتی املاک کو دیکھا جائے گا، پھر ہر ایک کا فیصلہ کیا جائے گا۔
فتاوی شامی میں ہے:
"وذكر في الفتاوى فيمن له حوانيت ودور للغلة لكن غلتها لا تكفيه وعياله أنه فقير ويحل له أخذ الصدقة عند محمد، وعند أبي يوسف لا يحل وكذا لو له كرم لا تكفيه غلته؛ ولو عنده طعام للقوت يساوي مائتي درهم، فإن كان كفاية شهر يحل أو كفاية سنة، قيل لا تحل، وقيل يحل؛ لأنه يستحق الصرف إلى الكفاية فيلحق بالعدم، وقد ادخر - عليه الصلاة والسلام - لنسائه قوت سنة، ولو له كسوة الشتاء وهو لا يحتاج إليها في الصيف يحل ذكر هذه الجملة في الفتاوى. اهـ.
وفي التتارخانية عن التهذيب أنه الصحيح وفيها عن الصغرى له دار يسكنها لكن تزيد على حاجته بأن لا يسكن الكل يحل له أخذ الصدقة في الصحيح وفيها سئل محمد عمن له أرض يزرعها أو حانوت يستغلها أو دار غلتها ثلاث آلاف ولا تكفي لنفقته ونفقة عياله سنة؟ يحل له أخذ الزكاة وإن كانت قيمتها تبلغ ألوفا وعليه الفتوى."
(كتاب الزكاة، باب مصرف الزكاة والعشر، ج:2، ص:348، ط:سعيد)
فتاوی عالمگیریہ میں ہے:
"وكذا لو كان له حوانيت أو دار غلة تساوي ثلاثة آلاف درهم وغلتها لا تكفي لقوته وقوت عياله يجوز صرف الزكاة إليه في قول محمد - رحمه الله تعالى -، ولو كان له ضيعة تساوي ثلاثة آلاف، ولا تخرج ما يكفي له ولعياله اختلفوا فيه قال محمد بن مقاتل يجوز له أخذ الزكاة."
(كتاب الزكاة، الباب السابع في المصارف، ج:1، ص:187، ط: دار الفكر بيروت)
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
"(الفصل الأول في زكاة الذهب والفضة)
تجب في كل مائتي درهم خمسة دراهم، وفي كل عشرين مثقال ذهب نصف مثقال."
(کتاب الزکوۃ ، الباب الثالث ، جلد : 1 ، صفحه : 178 ، طبع : دار الفکر)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
'' لا يجوز دفع الزكاة إلى من يملك نصاباً أي مال كان دنانير أو دراهم أو سوائم أو عروضاً للتجارة أو لغير التجارة فاضلاً عن حاجته في جميع السنة، هكذا في الزاهدي، والشرط أن يكون فاضلاً عن حاجته الأصلية، وهي مسكنه، وأثاث مسكنه وثيابه وخادمه، ومركبه وسلاحه، ولا يشترط النماء إذ هو شرط وجوب الزكاة لا الحرمان، كذا في الكافي. ويجوز دفعها إلى من يملك أقل من النصاب، وإن كان صحيحاً مكتسباً، كذا في الزاهدي. .......ولا يدفع إلى بني هاشم، وهم آل علي وآل عباس وآل جعفر وآل عقيل وآل الحارث بن عبد المطلب، كذا في الهداية ۔ ويجوز الدفع إلى من عداهم من بني هاشم كذرية أبي لهب؛ لأنهم لم يناصروا النبي صلى الله عليه وسلم، كذا في السراج الوهاج. هذا في الواجبات كالزكاة والنذر والعشر والكفارة، فأما التطوع فيجوز الصرف إليهم، كذا في الكافي''.
(کتاب الزکاة ، باب المصرف ،1/ 189 ،طبع : رشیدیه)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144604100865
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن