بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

ترکہ کی شرعی حیثیت اور ملکی قانون وراثت پر عمل کرنا


سوال

تركہ كي شرعي حيثىت كيا  ہے؟ ہمارا ملكي قانون جو وراثتي معاملات كرتا  ہے وہ بھی شریعت کے مطابق کرتا ہے یا نہیں؟ اس قانون کا شرعاً کا کیا حکم ہے؟

جواب

   ترکہ اس مال کو کہا جاتا ہے جو کسی کی موت کے بعد اس کے پیچھے رہ جائے اور وہ غیر کے حق (مثلاً قرض وغیرہ) سے خالی ہو، اس متروکہ مال میں مرحوم کے وہ تمام ورثاء جن کا شریعت نے  حق متعین کیا ہے وہ   سب اپنے اپنے شرعی حصوں کے مطابق حق دار ہوجاتے ہیں، اور  ترکہ ان سب کے درمیان  مشترک ہوجاتا ہے،  جو شرعاً وارث بن رہا ہو اس کو اس کے شرعی حصے سے محروم کرنا یاغیر وارث کا  ترکہ میں سے اپنے حق کا دعوی کرنا جائز نہیں ہے۔

ملکی قانون  جو شریعت کے مطابق ہو، وہ شرعاً قبول ہوگا، اور جو شریعت کے مطابق نہ ہو  اس کا شرعاً اعتبار نہیں ہوگا، جیسے  ہمارے ملکی  قانون”مسلم عائلی قوانین آرڈیننس 1961ءکی دفعہ 4“  (یتیم پوتے وغیرہ کی میراث)   شرعی قانون کے مطابق نہیں ہے، اس لیے شرعاً وہ قابل عمل بھی نہیں ہے۔

اس کی مزید تفصیل کے لیے ہمارے جامعہ کے ترجمان رسالہ ”ماہنامہ بیّنات“  میں قسط وار چار مضامین”مسلم عائلی قوانین آرڈیننس 1961ءکی دفعہ 4“ عنوان سے  طبع ہوئے ہیں، ان کا مطالعہ مفید رہےگا، ان کا لنک درج ذیل ہے: 

پہلی قسط ،  دوسری قسط، تیسری قسط، چوتھی قسط

الدر المختار مع حاشیہ ابن عابدین میں ہے:

"التركة ما تركه الميت من الأموال صافيا عن تعلق حق الغير بعين من الأموال كما في شروح السراجية."

(کتاب الفرائض، 6/ 759، ط: سعید)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144601101905

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں