بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

ترکہ کی تقسیم/باہمی رضامندی سے ترکہ کی تقسیم/ترکہ کی رقم تقسیم کرنے سے پہلے تعزیت کرنے والوں پر رقم خرچ کرنا/تقسیم سے پہلے ترکہ کی رقم پر زکات


سوال

1۔ ہمارے والد صاحب کا انتقال ہوا،ورثاء میں بیوہ،ایک بیٹا اور چار بیٹیاں ہیں،ان کے درمیان ترکہ کس طرح تقسیم ہوگا؟والد کے والد حیات نہیں ہیں۔

2۔ ورثاء آپس کی رضامندی سے کسی وارث کو خوشی سے زیادہ دینا چاہیں تو اس کا کیا حکم ہے؟

3۔ والد صاحب کے انتقال کو 10دن ہوگئے اس میں والد صاحب کے ترکہ میں سے کچھ رقم تعزیت کرنے والوں کے درمیان خرچ ہوئی ہے تو اس کا کیا حکم ہے؟

4۔ فی الوقت ترکہ میں جو سونا،پاؤنڈز اور رقم وغیرہ موجود ہیں ان میں زکات ہوگی یا نہیں؟

جواب

1۔صورت مسئولہ  میں مرحوم کے حقوق متقدمہ یعنی تجہیزوتکفین کا خرچہ نکالنے کے بعد اگر مرحوم کے ذمہ کوئی قرض ہو ،تو  اسے کل مال سے ادا کرنے کے بعد ، اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو ،تو اسے باقی ترکہ کے ایک تہائی سے نافذ کرنے کے بعد بقیہ کل ترکہ منقولہ وغیر منقولہ کو 48حصوں میں تقسیم کرکے 6 حصے بیوہ کو، 14 حص6 بیٹے، اور 7 حصے  ہر ایک بیٹی کو ملیں گے۔

صورت تقسیم یہ ہے:

میت: 48/8

بیوہبیٹابیٹیبیٹیبیٹیبیٹی
17
6147777

فیصد کے اعتبار سے 12.5فیصد بیوہ کو،29.16فیصد اکلوتے بیٹے  کو، اور 14.58فیصد ہر ایک بیٹی  کو ملے گا۔

2۔ ورثاء آپس میں باہمی رضامندی سے مصالحتی طور پر ترکہ تقسیم کرنا چاہیں اور کسی وارث کو اس کے متعین شرعی حصےسے زیادہ دینا چاہیں تو اس کی بھی گنجائش ہے۔

3۔ ترکہ  چونکہ تمام ورثاء کی مشترکہ ملکیت ہے،اس لیے اگر تمام ورثاء عاقل وبالغ ہیں اور ان کی اجازت سے ترکہ کی کچھ رقم    تعزیت کرنے والوں پرخرچ  کی گئی ہو، تو کچھ حرج نہیں،لیکن اگرورثاء  راضی  نہ  ہوں یا کوئی وارث عاقل وبالغ نہ ہو، تو  تعزیت کرنے والوں پر ترکہ کی رقم  خرچ کرنا شرعا جائز نہیں ہوگا۔

4۔ ترکہ کی تقسیم سے پہلے مشترکہ ترکہ پر زکوٰة لازم نہیں ہوگی ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: ثم شرع في مسألة التخارج) تفاعل من الخروج وهو في الاصطلاح تصالح الورثة على إخراج بعضهم عن الميراث على شيء من التركة عين أو دين قال في سكب الأنهر وأصله ما روي أن عبد الرحمن بن عوف - رضي الله تعالى عنه - طلق في مرض موته إحدى نسائه الأربع ثم مات وهي في العدة فورثها عثمان - رضي الله تعالى عنه - ربع الثمن فصالحوها عنه على ثلاثة وثمانين ألفا من الدراهم وفي رواية من الدنانير وفي رواية ثمانين ألفا وكان ذلك بمحضر من الصحابة من غير نكير اهـ....  أنهم لو أخرجوا واحدا، وأعطوه من مالهم فحصته تقسم بين الباقي على السواء وإن كان المعطى مما ورثوه فعلى قدر ميراثهم قال الشارح هناك وقيده الخصاف بكونه عن إنكار فلو عن إقرار فعلى السواء اهـ فتأمله."

( كتاب الفرائض، باب المخارج، ج6ص811،ط؛سعید)

درر الحکام فی شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

"كل واحد من الشركاء في ‌شركة ‌الملك أجنبي في حصة الآخر ولا يعتبر أحد وكيلا عن الآخر فلذلك لا يجوز تصرف أحدهما في حصة الآخر بدون إذنه...."

(الكتاب العاشر الشركات، الباب الأول، الفصل الثاني، ج3، ص 28، رقم المادة: 1075، ط: دار الجيل)

 المبسوط للسرخسي  میں ہے:

"ولو أن رجلا ‌ورث ‌عن أبيه ألف درهم فأخذها بعد سنين فلا زكاة عليه لما مضى في قول أبي حنيفة - رحمه الله - تعالى الآخر وفي قولهما عليه الزكاة لما مضى ففي هذا الرواية جعل الموروث بمنزلة الدين الضعيف مثل الصداق وبدل الخلع، وفي ذلك قولان لأبي حنيفة - رحمه الله تعالى - فكذلك في هذا وفي كتاب الزكاة جعل الموروث كالدين المتوسط عند أبي حنيفة - رحمه الله -، وهو ثمن مال البذلة والمهنة فقال: إذا قبض نصابا كاملا بعد كمال الحول تلزمه الزكاة لما مضى وجه تلك الرواية أن الوارث يخلف المورث في ملكه، وذلك الدين كان مال الزكاة في ملك المورث فكذلك في ملك الوارث، ووجه هذه الرواية أن الملك في الميراث يثبت للوارث بغير عوض فيكون هذا بمنزلة ما يملك دينا عوضا عما ليس بمال، وهو الصداق فلا يكون نصاب الزكاة حتى يقبض يوضحه أن الميراث صلة شرعية والصدقة للمرأة في معنى الصلة أيضا من وجه قال الله تعالى {وآتوا النساء صدقاتهن نحلة} [النساء: 4] أي عطية وما يستحق بطريق الصلة لا يتم فيه الملك قبل القبض فلا يكون نصاب الزكاة."

(كتاب الزكات،ج3،ص41،الناشر: مطبعة السعادة - مصر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144608100939

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں